*🌹 مختصر تعارف ،حضور اشرف الاولیا قدس سرہ 🌹*
بانی مخدوم اشرف مشن، پنڈوہ شریف
(١٣٤٦ھ———١٤١٨ھ)
چودھویں صدی ہجری کی ایک عبقری شخصیت، خانوادہء اشرفیہ کے چشم و چراغ، زینۃ الاتقیا، سیدالاذکیا، اشرف الاولیا، ابو الفتح سید محمد مجتبیٰ اشرف اشرفی الجیلانی قدس سرہ العزیز کی ذات والا صفات، منبع فیوض و برکات تھی.... آپ ایک ولی کامل، مرشد برحق اور حضور تاج الاصفیا، سید شاہ مصطفی اشرف علیہ الرحمہ کے علمی و روحانی جانشیں تھے..
*خاندانی وجاہت:* خاندانی اعتبار سے آپ کا تعلق علم و فضل، کشف و کرامت والے گھرانے سے ہے، آپ کے والد محترم حضور تاج الاصفیا سید شاہ مصطفٰی اشرف کچھوچھوی علیہ الرحمہ، صاحب فضل و کمال اور فائق الأقران تھے،، اور آپ کے جد امجد شیخ المشایخ سید شاہ اعلی حضرت اشرفی میاں، ایک متبحر عالم دین، صاحب کشف و کرامت، خدا رسیدہ بزرگ اور مرجع خلائق تھے...اسی طرح آپ کا پورا گھرانہ، حق آگاہ اور خدا ترس تھا..
*ولادت باسعادت:* ٢٦/ربیع الآخر ١٣٤٦ھ مطابق ٢٣/اکتوبر ١٩٢٧ء کو کچھوچھہ مقدسہ میں آپ کی ولادت با سعادت ہوئی..
*تعلیم و تربیت:* خاندانی دستور کے مطابق جب آپ کی عمر چار سال چار ماہ چار دن کی ہوئی تو حضور تاج الاصفیا نے مدرسہ اشرفیہ کچھوچھہ میں نابغہ روزگار اساتذہ کے سپرد کیا، آپ نے پورے انہماک کے ساتھ تعلیم کا آغاز فرمادیا، ابتدائی تعلیم سے لے کر شرح جامی تک کی تعلیم کچھوچھہ ہی میں حاصل کی اور اعلی تعلیم کے لیے ١٢/شوال المکرم ١٣٦٠ھ کو ہندوستان کی سب سے بڑی دانش گاہ الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور میں داخلہ لیا، آپ نے اشرفیہ میں حضور حافظ ملت علامہ عبدالعزیز محدث مرادآبادی، علامہ عبدالمصطفی اعظمی علامہ عبدالرؤف بلیاوی اور مولانا سلیمان اشرف بھاگلپوری رحمۃ اللہ علیہم اجمعین جیسے جلیل القدر اساتذہ سے تحصیل علوم کیا اور تمام مروجہ علوم و فنون میں مہارت حاصل کی اور شعبان المعظم میں جامعہ اشرفیہ سے دستار و سند فضیلت حاصل کر کے بحیثیت معین المدرسين منتخب ہوئے، آپ کا شمار الجامعۃالاشرفیہ کے قابل فخر فرزندوں میں ہوتا ہے...
*بیعت و خلافت:* حضور اشرف الاولیا قدس سرہ العزیز جب سن رشد کو پہنچے تو آپ کے باطنی کمالات کو دیکھتے ہوئے اسی وقت آپ کے جد امجد حضور اعلی حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ نےسلسلہ عالیہ قادریہ نقشبندیہ اشرفیہ میں آپ کو بیعت کیا اور اجازت و خلافت عطا فرمائی...
حضور اشرف الاولیا علیہ الرحمہ نے جامعہ اشرفیہ سے فراغت کے کچھ ہی عرصہ بعد دعوت وتبلیغ اور طریقت و ارشاد کا میدان اپنایا،اس میں بھی انھوں نے ایسے علاقوں کا انتخاب کیا جو جہالت کے گھپ اندھیرے میں تھے، یوپی، بہاراور بنگال کے ان خطوں کی جانب توجہ کی جہاں کسی عالم، خطیب، مرشد اور پیر کا گزر کم ہی ہوتا تھا، عموماً ان جگہوں میں جو لوگ ملتے وہ علم و دولت سے تہی دامن ہوتے، باشعور طبقہ تک اسلام کا پیغام پہنچانا آسان ہوتا ہے لیکن ناخواندہ یا کم خواندہ طبقے کو علم و فضل سے آراستہ کرنا اور ان تک اسلام کے احکامات پہنچانا بہت مشکل گزار مرحلہ ہوتا ہے لیکن حضور اشرف الاولیا نے مسلسل جدوجہد اور پیہم کوششوں سے اپنی دعوت وتبلیغ کے ذریعے انھی اعرابیت زدہ بنجر علاقوں کو اسلام کی قدروں سے آشنا کر دیا اور اپنی پوری زندگی انھی علاقوں میں گزار دی...
آپ نے اپنی تبلیغ کے ذریعے بہت سے بد عقیدوں کو سنی صحیح العقیدہ بنایا، دین سے بھٹکے ہوئے انسانوں میں دین اسلام کی شمع فروزاں کی اور بہت سے بے دین کو داخل دین اسلام کیا..
*مخدوم اشرف میشن کا قیام:*
حضور اشرف الاولیا نے قوم مسلم کی فلاح و بہبود کے لیے متعدد مکاتب، مدارس، مساجد اور جامعات کی بنا ڈالی... بے شمار فلاحی تنظیموں اور تحریکوں کی سرپرستی فرمائی اور اصلاح و تزکیہ نفس کے لیے ملک و بیرون ملک کے بہت سے علاقوں میں خانقاہوں کا قیام بھی فرمایا، آپ کے قائم کردہ اداروں میں جس کو شہرت دوام حاصل ہوئی وہ مخدوم اشرف مشن پنڈوہ شریف ہے..
پنڈوہ شریف ایک زمانے میں علم و حکمت کا مرکز تھا جہاں سات سو علماےکرام ایک ساتھ مخدوم العالم کی بارگاہ میں زانوئے ادب تہہ کیا کرتے تھے لیکن بدلتے دن کے ساتھ حالات بھی بدلتے رہے، دھیرے دھیرے اسلامی تعلیمات کی جگہ کفرو شرک کے رسومات نے لے لی تھی، مسلمان کفر و شرک سے قریب ہوگئے تھے اور عقائد حقہ سے دور و نفور اختیار کر چکے تھے، ایسے حالات میں حضور اشرف العلما نے پنڈوہ شریف کو اپنی دعوت کا محور بنایا اور باطل قوتوں سے مقابلہ کرنے کے لیے ١٢ /شوال المکرم ١٩٩٣ء کو "الجامعۃ الجلالیۃ العلائیہ الاشرفیۃ" معروف بہ مخدوم اشرف مشن کی بنیاد رکھی..
مخدوم اشرف مشن کے در و بام میں حضور اشرف الاولیا کا خون جگر اور خلوص وللّٰہیت اور حضرت شیخ علاء الحق پنڈوی علیہ الرحمہ کی آغوش کا فیضان شامل ہے؛ اسی وجہ سے اتنی قلیل مدت میں یہ ادارہ شہرت کی اس منزل پر پہنچ چکا ہے کہ اب اس کا شمار بر صغیر ہند و پاک کے ممتاز اداروں میں ہونے لگا ہے...
*وصال:* اپنی پوری زندگی دینی و ملی، تبلیغی و تعلیمی خدمات میں گزارنے کے بعد، خانوادہء اشرفیہ کا یہ چشم و چراغ دنیاے سنیت کو سوگوار کر کے بروز جمعہ *٢١/ذی القعدہ ١٤١٨ھ مطابق ٢٠/مارچ ١٩٩٨ء* کو ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے... إنا لله وإنا إليه راجعون
ابر رحمت ان کی مرقد پر گہر باری کرے
حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے
از قلم: غلام مزمل عطا اشرفی (سہرسہ بہار)
#اتفاق_زندگی_ہے_اور_اختلاف_موت : #حافظ_ملت
حافظ ملت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مرادآبادی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
انسان جسم اور روح کا مجموعہ ہے، جب کہا جاتا ہے: فلاں آدمی مر گیا تو بتاؤ جسم و روح میں سے کون سی چیز ہے جو مر گئی یا فنا ہوئی۔ کیا روح مر جاتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ اہل اسلام ہی نہیں بلکہ فلاسفہ کا بھی یہ عقیدہ ہے کہ روح نہیں مرتی۔ پھر کیا جسم مر جاتا ہے؟ یہ بھی نہیں۔ اسے تو تم آنکھوں سے دیکھتے ہو، ہاتھوں سے ٹٹولتے ہو، تمام اعضا اپنی جگہ سلامت ہیں، کوئی عضو فنا نہیں ہوا۔ پھر موت کیا ہے؟ میں کہتا ہوں موت جسم اور روح کے اختلاف کا نام ہے۔ جب تک روح و جسم کا اتصال و اتفاق تھا، آدمی زندہ تھا۔ جب دونوں میں اختلاف اور جدائی ہو گئی کہہ دیا انسان مر گیا۔
معلوم ہوا اتفاق زندگی ہے اور اختلاف موت۔ ایک جسم و روح کا اختلاف شخص کی موت ہے۔ افراد خانہ کا اختلاف گھر کی موت ہے۔ ایک محلہ، ایک گاؤں، ایک شہر یا ایک ملک کا اختلاف اس محلہ، گاؤں، شہر یا ملک کی موت ہے-#اتفاق_زندگی_ہے_اور_اختلاف_موت : #حافظ_ملت
حافظ ملت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مرادآبادی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
انسان جسم اور روح کا مجموعہ ہے، جب کہا جاتا ہے: فلاں آدمی مر گیا تو بتاؤ جسم و روح میں سے کون سی چیز ہے جو مر گئی یا فنا ہوئی۔ کیا روح مر جاتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ اہل اسلام ہی نہیں بلکہ فلاسفہ کا بھی یہ عقیدہ ہے کہ روح نہیں مرتی۔ پھر کیا جسم مر جاتا ہے؟ یہ بھی نہیں۔ اسے تو تم آنکھوں سے دیکھتے ہو، ہاتھوں سے ٹٹولتے ہو، تمام اعضا اپنی جگہ سلامت ہیں، کوئی عضو فنا نہیں ہوا۔ پھر موت کیا ہے؟ میں کہتا ہوں موت جسم اور روح کے اختلاف کا نام ہے۔ جب تک روح و جسم کا اتصال و اتفاق تھا، آدمی زندہ تھا۔ جب دونوں میں اختلاف اور جدائی ہو گئی کہہ دیا انسان مر گیا۔
معلوم ہوا اتفاق زندگی ہے اور اختلاف موت۔ ایک جسم و روح کا اختلاف شخص کی موت ہے۔ افراد خانہ کا اختلاف گھر کی موت ہے۔ ایک محلہ، ایک گاؤں، ایک شہر یا ایک ملک کا اختلاف اس محلہ، گاؤں، شہر یا ملک کی موت ہے-
Post a Comment