تکبیر تشریق کے احکام

 *تکبیر تشریق کے احکام*


✍:نو ذی الحجہ کی فجر سے تیرہویں کی عصر تک ہرنماز فرض کے بعد جو جماعت مستحبہ(مسجد محلہ میں باقاعدہ اذان و اقامت کے ساتھ ادا کی جانے والی جماعت)کے ساتھ ادا کی گئی۔ایک بارتکبیر تشریق بلند آواز سے کہنا واجب اورتین بار افضل ہے۔نفل و سنت و وتر کے بعد تکبیر واجب نہیں اور جمعہ کے بعد واجب ہے اور نماز عید کے بعد بھی کہہ لے۔

✍تکبیر تشریق سلام پھیرنے کے بعد فوراً واجب ہے یعنی جب تک کوئی ایسا فعل نہ کیا ہو کہ اس نماز پر بنا نہ کر سکے۔

✍تکبیر تشریق اس پر واجب ہے جو شہر میں مقیم ہو یا جس نے مقیم کی اقتدا کی اگرچہ عورت یا مسافر یا گاؤں کا رہنے والا ہو۔

✍عورتوں پر واجب نہیں اگرچہ جماعت سے نماز پڑھی ہو۔ہاں اگر مرد کے پیچھے عورت نے پڑھی اور امام نے اس کے امام ہونے کی نیت کی تو عورت پر بھی واجب ہے مگر آہستہ کہے۔

✍مسبوق(جس کی کچھ رکعات جماعت سے رہ جائیں اس)پربھی تکبیر واجب ہےمگر اس وقت کہےجب خود سلام پھیرے

✍منفرد (اکیلےنماز پڑھنے والے) پرتکبیرواجب نہیں۔

مگر منفرد بھی کہہ لے کہ صاحبین (امام ابو یوسف و امام محمد رحمھما اللہ) کے نزدیک اس پر بھی واجب ہے۔

✍امام نے تکبیر نہ کہی جب بھی مقتدی پر کہنا واجب ہے اگرچہ مقتدی مسافریادیہاتی یاعورت ہو۔

✍قضا نماز اس دن کی ہو خواہ پچھلی اس کے بعد تکبیر کہنا واجب نہیں۔

✍تکبیر تشریق یہ ہے:

اللہ اَکْبَرْ اللہ اَکْبَرْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ وَاللہ اَکْبَرْ اللہ اَکْبَرْ وَللہ الْحَمْدُ ط


(بہار شریعت)

ازقلم: غلام مزمل عطا اشرفی (سہرسہ بہار)








کی محمّدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں

صلی اللہ علیہ وسلم❤️


علامہ محمد اقبال رحمة اللہ علیہ کا یہ شعر بارہا ہم نےپڑھا اس پر روشنی ڈالیں توپہلی لائن سے مراد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ان کی سنت ان کے اسوہ حسنہ پر عمل کیا جائے۔ ان کی زندگی کو نمونہ بنا کر ان جیسی زندگی گزاری جائے۔ ان سے وفا کی جائے۔انسان جس سے وفا کرتا ہے اس کی سب باتیں مانتا ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب باتیں مانی جائیں ان پر عمل کیا جائے


اور دوسری لائن اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وفا کی تو یہ جہاں یہ دنیا یہ مال و دولت یہ کامیابی کیا چیز ہے- اللہ پاک انسان کی قسمت قلم سے لکھتے ہیں اور جس تختی پر لکھتے ہیں اسے لوح کہتے ہیں یعنی انسان کی قسمت لوح و قلم سے لکھی جاتی ہے اگر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی جیسی زندگی اپنا لی تو لوح و قلم آپ کے ہاتھ میں ہیں اس سے مراد ہے کہ پھر وہی ہو گا جو آپ چاہو گے- آپ کی قسمت آپ کی تقدیر آپ کی خوشی کے مطابق ہو گی اور اس میں اللہ کی خوشی بھی ہو گی


اب یہاں سوال اٹھتا ہے کہ اگر انسان غلط خواہش کرے تو وہ بھی پوری ہو گی؟

جب زندگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی ہو گئی تو غلط خیالات اور خواہشیں دل میں آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا-


اللہ پاک ہم سب کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور سنت پر عمل کی توفیق دے

آمین!

0 Comments

Post a Comment

Post a Comment (0)

Previous Post Next Post