شان امامِ اہلِ سنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ

شان امامِ اہلِ سنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ  

از:غلام مزمل عطاؔ اشرفی (سہرسہ، بہار) 

پیشکش: نورادب,

...

🌸 عرسِ اعلیٰ حضرت کی مبارک بادی اور دعائے خیر 🌸

الحمد للہ! ان متبرک ایام میں ہم امامِ اہلِ سنت، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری بریلویؒ کے عرسِ پاک کی سعادت و خوشبوؤں سے فیض یاب ہیں۔ یہ دن عاشقانِ رسول ﷺ کے لیے ایمان و عشق کی تازگی کا پیغام ہے۔

یا اللہ! اعلیٰ حضرت کے وسیلے سے ہمیں عشقِ مصطفی ﷺ، علمِ نافع، دین پر استقامت اور امتِ مسلمہ کو اتحاد و برکت عطا فرما۔

آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ۔

🌟 اب آئیے! اس سعادت مند موقع پر اعلیٰ حضرت کے ایک اہم پہلو یعنی ان کے جامعُ العلوم ہونے پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

---

🕋 تمہیدِ جامع

تاریخِ اسلام کے افق پر ایک ایسا آفتاب طلوع ہوا جس کی روشنی میں عقل دلیل بن گئی، عشق دلیل کو جِلا دینے لگا، اور شریعت و طریقت ایک ہی میزان پر توازن پا گئیں—یہ ہیں امام احمد رضا قادری بریلویؒ؛ جنہیں دنیا اعلیٰ حضرت، فاضلِ بریلوی، امامِ اہلِ سنت، مجددِ ملت کے عنوانات سے یاد کرتی ہے۔ آپ کی شخصیت علم و عرفان، فقہ و حدیث، تفسیر و کلام، تصوف و سلوک، ادب و عروض، اور ہیئت و ریاضی تک میں ایسی ہمہ گیری رکھتی ہے کہ معاصرین نے آپ کو “جامعُ العلوم” کہا۔


اس مضمون میں ہم کتابی وقار کے ساتھ مگر مضمونی ربط کو قائم رکھتے ہوئے آپ کی زندگی کے ہر نمایاں گوشے پر تحقیقاً گفتگو کریں گے—بالتدریج، مدللاً، اور روایتاً۔

دینِ ہُدیٰ کا ہے یہ وقارِ اعلیٰ حضرت

قول و عمل، عشقِ رسول—شعارِ اعلیٰ حضرت

کہتا ہے عطا: دل کو ملا اطمینان

یوں حق نے دکھایا ہم کو مدارِ اعلیٰ حضرت

---

🏷️ نام، القابات، نسب اور تاریخی پس منظر

آپ کا نام احمد رضا خان، کنیت ابو محمد، اور نسبت قادری ہے۔ برصغیر کے علمی و روحانی ماحول میں آپ کے خانوادے کی شناخت علم، فتویٰ اور خدمتِ دین سے تھی۔ علمی فضا، مذہبی تربیت اور زبان و بیان کے ذوق نے آپ کی ابتدائی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اعلیٰ حضرت کا لقب آپ کے علمی و روحانی وقار کے اعتراف میں رائج ہوا جو اب تاریخی شناخت ہے۔


علم و عمل کے سبہیں نگارِ اعلیٰ حضرت

دین و سنن کے ہیں یادگارِ اعلیٰ حضرت

عرضِ عطا: قول میں تاثیر جو پائی گئی

وہ بھی تمھارا ہے افتخارِ اعلیٰ حضرت

---

🎓 پیدائش، نشوونما اور ابتدائی تعلیم

آپ کی ولادت 14 جون 1856ء (10 شوال 1272ھ) بریلی میں ہوئی۔ خانوادۂ علم نے ابتدائی کتبِ دینیہ (نحو، صرف، منطق، بلاغت) اور حفظِ متون کے ساتھ ساتھ سماعِ درس کا ذوق دیا۔ کم سنی میں غیر معمولی فہم کے آثار نمایاں ہوئے؛ 13–14 سال کی عمر میں فتویٰ نویسی کا آغاز اسی ذوقِ تحقیق کا اعلان تھا۔


آغاز سے ہی تھا استوارِ اعلیٰ حضرت

بچپن میں چمکتا تھا نکھارِ اعلیٰ حضرت

کہتا ہے عطا: علم کی پہلی کرن میں بھی

دکھتا تھا بڑا ایک وقارِ اعلیٰ حضرت

---

📜 اساتذہ، اجازتیں اور سندِ روایت

آپ نے اپنے گھرانے کے جلیل القدر علما کے علاوہ برصغیر کے نامور اہلِ فن سے اخذِ علم کیا۔ پھر حرمین شریفین کے اسفار میں ائمہ و محدثین سے ملاقاتیں ہوئیں؛ آپ کے علم و فضل پر اجازت و تقاریظ ملیں۔ روایت و درایت کے امتزاج نے آپ کی علمی شخصیت کو “برہانِ معقول و منقول” کا جامع بنایا۔


صد علم کے ٹھہرے ہیں سہارِ اعلیٰ حضرت

تقریظ میں ملتا ہے نکھارِ اعلیٰ حضرت

عطا نے کہا: لوحِ سند پر بھی دیکھو

ہر اسم ہوا فردوس زارِ اعلیٰ حضرت

---

📚 جامعُ العلوم: فنون کی کثرت

اہلِ تحقیق کے نزدیک آپ صرف ایک یا دو علوم تک محدود نہ تھے بلکہ سو (100) سے زائد علوم و فنون میں مہارت رکھتے تھے۔ یہ ہمہ گیری اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کی شخصیت صرف مفتی یا شاعر نہیں بلکہ ایک جامعُ العلوم تھی۔


🌟 اعلیٰ حضرت بطورِ جامع العلوم

اگر ہم علمی ورثے پر نگاہ ڈالیں تو واضح ہوتا ہے کہ اعلیٰ حضرت کی عظمت صرف چند علوم تک محدود نہیں بلکہ آپ نے 100 سے زائد علوم و فنون میں اپنی مہارت کا لوہا منوایا۔ علما و محققین کی تحقیق کے مطابق وہ علوم جن میں امام احمد رضا خانؒ کو غیر معمولی دسترس حاصل تھی، ان کا ایک اجمالی تذکرہ درج ذیل ہے:

---

🔹 قرآنی و دینی علوم

1. علمِ قرآن

2. علمِ تفسیر

3. اصولِ تفسیر

4. علمِ حدیث

5. اصولِ حدیث

6. علمِ فقہ

7. اصولِ فقہ

8. علمِ کلام

9. علمِ عقائد

10. علمِ تصوف و سلوک

11. علمِ دعا و اذکار

12. علمِ اخلاق

13. علمِ اسماء الرجال

14. علمِ ناسخ و منسوخ

15. علمِ معانیِ قرآن

---

🔹 عربی و ادبی علوم

16. علمِ نحو

17. علمِ صرف

18. علمِ بلاغت

19. علمِ معانی

20. علمِ بیان

21. علمِ بدیع

22. عربی لغت

23. اردو ادب

24. فارسی ادب

25. علمِ عروض و قافیہ

26. علمِ انشا و خطابت

---

🔹 منطقی و فلسفی علو

27. علمِ منطق

28. فلسفۂ یونان

29. فلسفۂ اسلام

30. علمِ کونیات (Cosmology)

31. علمِ الٰہیات

---

🔹 ریاضی و فلکیات

32. علمِ ریاضی

33. علمِ جبر و مقابلہ

34. علمِ ہندسہ

35. علمِ فلکیات

36. علمِ نجوم (Astronomy as science)

37. علمِ اوقات و مواقيت

38. علمِ جغرافیہ

---

🔹 سائنسی و تحقیقی علوم

39. علمِ طبیعیات

40. علمِ کیمیا

41. علمِ حیاتیات (Biology)

42. علمِ نباتات

43. علمِ حیوانات

44. علمِ طب

45. علمِ تشریح الاعضاء (Anatomy)

46. علمِ ہیئت (Structure of universe)

---

🔹 دینی و فقہی جزئیات

47. علمِ میراث (فرائض)

48. علمِ فرائض و وصایا

49. علمِ عبادات

50. علمِ معاملات

51. علمِ فقہ مقارن

52. علمِ حدود و تعزیرات

53. علمِ حج و قربانی کے مسائل

54. علمِ نکاح و طلاق کے مسائل

---

🔹 دیگر علوم و فنون

55. علمِ تاریخ

56. علمِ سیرت

57. علمِ نسب و انساب

58. علمِ سوانح

59. علمِ موسيقی (بطورِ نقد و رد)

60. علمِ سیاستِ شرعیہ

61. علمِ قضاء و افتاء

62. علمِ خط و کتابت

63. علمِ حسابِ جمل

64. علمِ رمل و جفر (بطورِ تحقیق و رد)

---

یہ فہرست دراصل اس بحرِ بیکراں کا ایک مختصر عکس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت کے علوم کی وسعت 100 سے بھی زیادہ شعبوں پر محیط ہے اور آج کے دور کا کوئی تحقیقی ادارہ بھی اس پر مکمل احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔

---

ہر فن میں دکھا نقش و نگارِ اعلیٰ حضرت

ہر باب میں ہے نکھرا نکھارِ اعلیٰ حضرت

عطا کو ملا رازِ ہنر یوں تو حیات میں

جب پڑھ لیا آثار و دیارِ اعلیٰ حضرت

---

⚖️ فقہ و فتاویٰ: منہج، دلائل اور اثرات

آپ کا شاہکار “فتاویٰ رضویہ” (کئی جلدیں) ایک دینی انسائیکلوپیڈیا ہے۔ اس میں منہج یہ رہا:


1. نصِ شرع (قرآن/حدیث) کی بنیاد

2. فقہِ معتبرہ کی تطبیق

3. عرف و مصلحت کا توازن

4. احتیاطِ دینی

احکام میں معیار و مدارِ اعلیٰ حضرت

دلائل میں ہے قوتِ کارِ اعلیٰ حضرت

عطا نے کہا: حرفِ فتویٰ میں آج تک

پایا نہ کہیں اور وہ بہارِ اعلیٰ حضرت

---

📖 حدیث و تفسیر: روایت کی صحت، درایت کی جِلا

علومِ حدیث میں آپ کی توجہ تخریج، جرح و تعدیل اور فقہُ الحدیث پر رہی۔ تفسیر میں آپ کا کارنامہ کنزالایمان ہے—جس میں معنی کی امانت، زبان کی شستگی اور عقیدے کی تہذیب جمع ہے۔


تفسیر میں روشن ہے بضاعت کی یہ نہارِ اعلیٰ حضرت

حدیث میں معیار، نکھارا یہ سنوارِ اعلیٰ حضرت

عطا کہے: آیات کی تعبیر میں آج تک

دل جیت گیا حُسنِ بیانِ روزگارِ اعلیٰ حضرت

---

💖 عشقِ رسول ﷺ اور نعتیہ شاعری

آپ کی حیات کا محور محبتِ مصطفیٰ ﷺ ہے۔ دیوان حدائقِ بخشش میں نعت و منقبت کے گوہر بکھرے ہیں۔ عقیدے کے باب میں آپ نے مدحتِ رسول ﷺ کو آدابِ شریعت کا پابند رکھا۔


دل میں رہا ہر دم وہ قرارِ اعلیٰ حضرت

مدحت میں بھی معیارِ وقارِ اعلیٰ حضرت

کہتا ہے عطا: نامِ نبیؐ جب بھی لیا

لب پر آیا گلزار و بہارِ اعلیٰ حضرت

---

🕊️ تصوف و سلوک: ظاہر و باطن کی جمع

آپ کو کئی سلاسل میں اجازت تھی مگر غوث الاعظمؓ کی غلامی آپ کی پہچان بنی۔ آپ نے تصوف کو اطاعتِ شریعت کا تابع قرار دیا۔


باطن میں بھی آیا وہ سنوارِ اعلیٰ حضرت

ظاہر میں بھی رکھا ہے وقارِ اعلیٰ حضرت

عطا نے کہا: فقر اگر آداب نہ ہو

کس کام کی پھر شانِ دیارِ اعلیٰ حضرت

---

🔭 منطق، فلسفہ، ریاضی و ہیئت

آپ نے برہان، قیاس، استقراء پر کمال لکھا؛ ریاضی میں تقاویم، سمتِ قبلہ اور اوقات کے مسائل پر رہنمائی کی؛ ہیئت میں اجرامِ فلکی کی تحقیق فرمائی۔


حساب میں بھی پایا ہے وقارِ اعلیٰ حضرت

ہیئت میں بھی دیکھا رخِ یارِ اعلیٰ حضرت

عطا کہے: جب قبلۂ دل ٹھیک ہوا

پایا دلِ گم گشتہ کو سارِ اعلیٰ حضرت

---

✍️ زبان، بلاغت، عروض و قافیہ

نثر میں استدلالی شستگی، شعر میں عروضی پابندی اور سہل ممتنع کی دلکشی—یہ آپ کا امتیاز ہے۔


الفاظ میں ہے سحرِ تتارِ اعلیٰ حضرت

اوزان میں ترتیبِ حصارِ اعلیٰ حضرت

عطا نے کہا: نظم میں جب بیٹھ گیا قافیہ

تب کھُل کے کِھلا رنگِ نگارِ اعلیٰ حضرت

---

🕋 تعلق بالحرَمین، تائیدات و تقاریظ

آپ نے مکہ و مدینہ کے اکابر سے روابط قائم کیے؛ کئی رسائل و فتاویٰ پر تقاریظ ملیں؛ اہلِ حرم نے آپ کی تصانیف کو قدر کی نگاہ سے دیکھا۔


حرمین سے پایا ہے نکھارِ اعلیٰ حضرت

تائید سے بڑھتا گیا وقارِ اعلیٰ حضرت

عطا نے کہا: جس پہ ہو شہرِ نبیؐ کی رضا

وہ کیا نہ ہو پھر عندلیبِ لالہ زارِ اعلیٰ حضرت

---

📘 نمایاں تصانیف اور دائمی میراث

فتاویٰ رضویہ — فقہ و مسائلِ عصر کا انسائیکلوپیڈیا

کنزالایمان — ایمان افروز ترجمۂ قرآن

حدائقِ بخشش — نعتیہ کلام کا درخشاں ذخیرہ

سینکڑوں رسائل: فقہ، عقائد، سلوک، زبان، ہیئت وغیرہ


تحریر بنی صبحِ بہارِ اعلیٰ حضرت

تفسیر سے روشن ہے دیارِ اعلیٰ حضرت

عطا نے لکھا نام تمھارا جب اپنے دل پر

بننے لگا لوح و مزارِ اعلیٰ حضرت

---

🔎 منہجِ تحقیق: اصول، ترتیب، اسلوب

1. اصل نص کو مقدم

2. فہمِ سلف کی کسوٹی

3. فقہی قواعد سے استنباط

4. لسانی و بلاغی تناظر میں معنی

5. زمان و مکان کی رعایت

6. لہجہ نرم، دلیل سخت


اسلوب میں ہے عدلِ قرارِ اعلیٰ حضرت

تحقیق میں میزان و عیارِ اعلیٰ حضرت

عطا نے کہا: فہم اگر چاہیے حق کا

پڑھ لو کبھی آدابِ نثارِ اعلیٰ حضرت

---

🌍 اثرات و نتائج

عقیدہ و عمل میں اعتدال کی راہ

فتنِ عصر کا علمی جواب

ادب و شاعری میں پاکیزہ معیار

درسِ نظامی کی تقویت اور افتا کی روایت

محبتِ رسول ﷺ کو روحانیت کا مرکز قرار دینا


ملت میں ہوا عہد گزارِ اعلیٰ حضرت

تاریخ میں ہے نقشِ بہارِ اعلیٰ حضرت

عطا نے کہا: اہلِ قلم بھی جو پڑھیں

کر دیں گے گہر پر بھی نثارِ اعلیٰ حضرت

---

🌹 خاتمۂ سخن

اعلیٰ حضرتؒ ایک فرد نہیں؛ ایک مکتبِ نظر ہیں—جہاں عقل و نقل باہم مصافحہ کرتے ہیں، عشق شریعت کی چوکھٹ چومتا ہے، اور زبانِ علم دل کی روشنی بڑھاتی ہے۔ ان کی حیاتِ مبارکہ کا خلاصہ یہی ہے: حضور ﷺ کی محبت میں علم کی امانت اور امت کی خیرخواہی۔


دل نے کیا ثابت یہ شعارِ اعلیٰ حضرت

حق نے دیا سارا وقارِ اعلیٰ حضرت

کہتا ہے عطا: علم و عمل کی رہ گزر

اب بھی ہے وہی رہبر و یارِ اعلیٰ حضرت

...

نذرانۂ عقیدت (منقبت)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری بریلویؒ کی شان میں عقیدت و محبت کے جذبات کو الفاظ کا جامہ پہناتے ہوئے، یہ عاجزانہ نذرانۂ عقیدت پیش ہے:

---

مطلع:

لَم یأتَ نَظیرُک فی فکر، چراغِ ہُدیٰ کی ضیا رضا

شرع و فتاویٰ کے ماہِ مبیں، حقیقت کا جوشِ بقا رضا


یَا بحرِ فقاہت و علمِ ہُدیٰ، شریعت کا محورِ صفا رضا

طوفاں میں اُمت کی ناؤ بنی، ہدایت کا محکم ندا رضا


احکامِ نبی کے ترجُماں، حدیث و ہُدیٰ کی شفا رضا

سب قطب و ائمہ نے مانا تجھے، ولایت کا سب 

سےوفارضا


یَا شَمسِ طریقت و عِلمِ یقیں، صداقت کا جلوہ عطا رضا

ایمان کے گلشن میں مہکی تری، محبت کا خوشبو رِضا رضا


اَنتَ سُراجُ سُنّتِ حق، حقیقت کا زُہرِ جلا رضا

ہر مسئلے میں قرآں کی صدا، تری ہی زباں نے دیا رضا


اہلِ محبت کا ہے سہارا، کرم کی بشارت سنا رضا

اُمت کی بخشش کا جامِ کرم، شفاعت کی میٹھی دعا رضا


تُو فَخرِ مدینہ، امامِ ہُدیٰ، شریعت کا زندہ نِدا رضا

بے کس کی پناہ، غریبوں کا دم، کرم کی حسیں مدعا رضا


علم و ہُدیٰ کے تُو کہکشاں، تجلی کا محور سرا رضا

باطل کی صفوں کو توڑ دیا، حقیقت کا زندہ صدا رضا


عشقِ رسول میں ڈوبا رہا، عبادت کا روشن وفا رضا

سنت کا عَلَم تری بزم میں ہے، شریعت کا عظمیٰ ضیا رضا


امت کے لیے ہے رہبر تُو، ولایت کا انور جلا رضا

توحید کی مشعل تھامے ہوئے، عقیدہ کا محکم بنا رضا


عرشِ ہُدیٰ کے ہیں مدح سرا، زمیں پہ ملا ہے عطا رضا

رحمت کی کرن ترے دم سے ہے، شریعت کا سب سے ضیا رضا

🖋 مقطع:

خامہ ہے عطاؔ مدّاح ترا، ثناؤں کا نُورِ بقا رضا

ہر دل کی زباں پر گونج رہا، امامِ ہُدیٰ کی صفا رضا

...

📌 نوٹ

اگر یہ مضمون آپ کو پسند آئے تو اسے شائع کرنے کی سعادت حاصل کریں اور ہمارے بلاگ نورِ ادب کو سپورٹ کریں۔ آپ کی حوصلہ افزائی ہمارے لیے نئی کاوشوں کا ذریعہ ہے۔

از:غلام مزمل عطاؔ اشرفی 

سہرسہ, بہار

پیشکش: نورادب

بلاگ پوسٹ

0 Comments

Post a Comment

Post a Comment (0)

Previous Post Next Post