تصوّف کا ایک خوبصورت نکتہ

 تصوّف کا ایک خوبصورت نکتہ

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جن چار پرندوں کو ذبح کیا ان میں سے ہر پرندا ایک بری خصلت میں مشہور ہے مثلاً مور کو اپنی شکل و صورت کی خوبصورتی پر گھمنڈ رہتا ہے اور مرغ میں کثرت شہوت کی بری خصلت ہے اور گدھ میں حرص اور لالچ کی بری عادت ہے اور کبوتر کو اپنی بلند پروازی اور اونچی اڑان پر نخوت و غرور ہوتا ہے۔ تو ان چاروں پرندوں کے ذبح کرنے سے ان چاروں خصلتوں کو ذبح کرنے کی طرف اشارہ ہے کہ چاروں پرند ذبح کئے گئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مردوں کے زندہ ہونے کا منظر نظر آیا اور ان کے دل میں نور اطمینان کی تجلی ہوئی۔ جس کی بدولت انہیں نفسِ مطمئنہ کی دولت مل گئی تو جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کا دل زندہ ہوجائے اور اس کو نفسِ مطمئنہ کی دولت نصیب ہوجائے اس کو چاہے کہ مرغ ذبح کرے یعنی اپنی شہوت پر چھری پھیر دے اور مور کو ذبح کرے یعنی اپنی شکل و صورت اور لباس کے گھمنڈ کو ذبح کرڈالے اور گدھ کو ذبح کرے یعنی حرص اور لالچ کا گلا کاٹ ڈالے اور کبوتر کو ذبح کرے یعنی اپنی بلند پروازی اور اونچے مرتبوں کے غرور و نخوت پر چھری چلا دے۔ اگر کوئی ان چاروں بری خصلتوں کو ذبح کرڈالے گا تو ان شاء اللہ تعالیٰ وہ اپنے دل کے زندہ ہونے کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا اور اس کو نفسِ مطمئنہ کی سرفرازی کا شرف حاصل ہوجائے گا۔

ازقلم: غلام مزمل عطا اشرفی (سہرسہ بہار)

یہ پیغام والدین کے نام


آپ کے بچے بھلے آپ سے پوچھیں یا نا پوچھیں، آپ انہیں یہ ضرور بتایا کیجیئے کہ ہم فلسطین سے اس لیئے محبت کرتے ہیں کہ:

01: یہ فلسطین انبیاء علیھم السلام کا مسکن اور سر زمین رہی ہے۔

02: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فلسطین کی طرف ہجرت فرمائی۔

03: اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السلام کو اس عذاب سے نجات دی جو ان کی قوم پر اسی جگہ نازل ہوا تھا۔

04: حضرت داؤود علیہ السلام نے اسی سرزمین پر سکونت رکھی اور یہیں اپنا ایک محراب بھی تعمیر فرمایا۔

05: حضرت سلیمان علیہ اسی ملک میں بیٹھ کر ساری دنیا پر حکومت فرمایا کرتے تھے۔

06: چیونٹی کا وہ مشہور قصہ جس میں ایک چیونٹی نے اپنی باقی ساتھیوں سے کہا تھا "اے چیونٹیو، اپنے بلوں میں گھس جاؤ" یہیں اس ملک میں واقع عسقلان شہر کی ایک وادی میں پیش آیا تھا جس کا نام بعد میں "وادی النمل – چیونٹیوں کی وادی" رکھ دیا گیا تھا۔

07: حضرت زکریا علیہ السلام کا محراب بھی اسی شہر میں ہے۔

08: حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسی ملک کے بارے میں اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ اس مقدس شہر میں داخل ہو جاؤ۔ انہوں نے اس شہر کو مقدس اس شہر کے شرک سے پاک ہونے اور انبیاء علیھم السلام کا مسکن ہونے کی وجہ سے کہا تھا۔

09: اس شہر میں کئی معجزات وقوع پذیر ہوئے جن میں ایک کنواری بی بی حضرت مریم کے بطن سے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ولادت مبارکہ بھی ہے۔

10: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جب اُن کی قوم نے قتل کرنا چاہا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں اسی شہر سے آسمان پر اُٹھا لیا تھا۔

11: ولادت کے بعد جب عورت اپنی جسمانی کمزوری کی انتہاء پر ہوتی ہے ایسی حالت میں بی بی مریم کا کھجور کے تنے کو ہلا دینا بھی ایک معجزہ الٰہی ہے۔

12: قیامت کی علامات میں سے ایک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زمین پر واپس تشریف اسی شہر کے مقام سفید مینار کے پاس ہوگا۔

13: اسی شہر کے ہی مقام باب لُد پر حضرت عیسٰی علیہ السلام مسیح دجال کو قتل کریں گے۔

14: فلسطین ہی ارض محشر ہے۔

15: اسی شہر سے ہی یاجوج و ماجوج کا زمین میں قتال اور فساد کا کام شروع ہوگا۔

16: اس شہر میں وقوع پذیر ہونے والے قصوں میں سے ایک قصہ طالوت اور جالوت کا بھی ہے۔

17: فلسطین کو نماز کی فرضیت کے بعد مسلمانوں کا قبلہ اول ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ہجرت کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام دوران نماز ہی حکم ربی سے آقا علیہ السلام کو مسجد اقصیٰ (فلسطین) سے بیت اللہ کعبہ مشرفہ (مکہ مکرمہ) کی طرف رخ کرا گئے تھے۔ جس مسجد میں یہ واقعہ پیش آیا وہ مسجد آج بھی مسجد قبلتین کہلاتی ہے۔

18: حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم معراج کی رات آسمان پر لے جانے سے پہلے مکہ مکرمہ سے یہاں بیت المقدس (فلسطین) لائے گئے۔

19: سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کی اقتداء میں انبیاء علیھم السلام نے یہاں نماز ادا فرمائی۔ اس طرح فلسطین ایک بار پھر سارے انبیاء کا مسکن بن گیا۔

20: سیدنا ابو ذرؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ زمین پر سب سے پہلی مسجد کونسی بنائی گئی؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ مسجد الحرام(یعنی خانہ کعبہ)۔ میں نے عرض کیا کہ پھر کونسی؟ (مسجد بنائی گئی تو) آپﷺ نے فرمایا کہ مسجد الاقصیٰ (یعنی بیت المقدس)۔ میں نے پھر عرض کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا فاصلہ تھا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ چالیس برس کا اور تو جہاں بھی نماز کا وقت پالے ، وہیں نماز ادا کر لے پس وہ مسجد ہی ہے۔

21: وصال حبیبنا صل اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ارتداد کے فتنہ اور دیگر

کئی مشاکل سے نمٹنے کیلئے عسکری اور افرادی قوت کی اشد ضرورت کے باوجود بھی ارض شام (فلسطین) کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تیار کردہ لشکر بھیجنا بھی ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے۔

22: اسلام کے سنہری دور فاروقی میں دنیا بھر کی فتوحات کو چھوڑ کر محض فلسطین کی فتح کیلئے خود سیدنا عمر کا چل کر جانا اور یہاں پر جا کر نماز ادا کرنا اس شہر کی عظمت کو اجاگر کرتا ہے۔

23: دوسری بار بعینہ معراج کی رات بروز جمعہ 27 رجب 583 ھجری کو صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں اس شہر کا دوبارہ فتح ہونا بھی ایک نشانی ہے۔

24: بیت المقدس کا نام قدس قران سے پہلے تک ہوا کرتا تھا، قرآن نازل ہوا تو اس کا نام مسجد اقصیٰ رکھ گیا۔ قدس اس شہر کی اس تقدیس کی وجہ سے ہے جو اسے دوسرے شہروں سے ممتاز کرتی ہے۔ اس شہر کے حصول اور اسے رومیوں کے جبر و استبداد سے بچانے کیلئے 5000 سے زیادہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے جام شہادت نوش کیا۔ اور شہادت کا باب آج تک بند نہیں ہوا، سلسلہ ابھی تک چل رہا ہے۔ یہ شہر اس طرح شہیدوں کا شہر ہے۔

25: مسجد اقصیٰ اور بلاد شام کی اہمیت بالکل حرمین الشریفین جیسی ہی ہے۔ جب قران پاک کی یہ آیت (والتين والزيتون وطور سينين وهذا البلد الأمين) نازل ہوئی ّ تو ابن عباس کہتے ہیں کہ ہم نے بلاد شام کو "التین" انجیر سے، بلاد فلسطین کو "الزیتون" زیتون سے اور الطور سینین کو مصر کے پہاڑ کوہ طور جس پر جا کر حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک سے کلام کیا کرتےتھے سے استدلال کیا۔

26: اور قران پاک کی یہ آیت مبارک (ولقد كتبنا في الزبور من بعد الذكر أن الأرض يرثها عبادي الصالحون) سے یہ استدلال لیا گیا کہ امت محمد حقیقت میں اس مقدس سر زمین کی وارث ہے۔

27: فلسطین کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے یہاں پر پڑھی جانے والی ہر نماز کا اجر 500 گنا بڑھا کر دیا جاتا ہے۔


0 Comments

Post a Comment

Post a Comment (0)

Previous Post Next Post