امت وسط کا مفہوم اس کی تفصیلی وضاحت


پیشکش:  نور ادب

 امت وسط کا مفہوم  اس کی تفصیلی وضاحت

اسلام ایک ایسا ہمہ گیر نظامِ حیات ہے جو انسانیت کو ہر میدان میں توازن، اعتدال، اور میانہ روی کی دعوت دیتا ہے۔ امت مسلمہ کو قرآن مجید میں "امت وسط" کا لقب عطا کیا گیا ہے، جیسا کہ فرمایا گیا:

"وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُوْنُوْا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا"

(سورہ بقرہ: 143)

ترجمہ: "اور اسی طرح ہم نے تمہیں ایک درمیانی امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول تم پر گواہ ہوں۔

یہ آیت امت مسلمہ کی انفرادیت، اس کے کردار اور ذمہ داری کو واضح کرتی ہے۔ "امت وسط" کے مفہوم کو بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے ہمیں اس کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنا ہوگا۔

---

لغوی اور اصطلاحی مفہوم

"وسط" عربی زبان میں اس چیز کو کہتے ہیں جو نہایت عمدہ اور بہترین ہو، اور جو کسی بھی معاملے میں درمیانی کیفیت یا مقام پر ہو۔

لغوی معنی:وسط کا مطلب "اعتدال"، "درمیانہ" اور "میانہ روی" ہے۔ یہ ایک ایسی کیفیت ہے جو افراط و تفریط سے پاک ہو۔

اصطلاحی معنی:اصطلاح میں "وسط" ایک ایسے معیار کو کہا جاتا ہے جو ہر پہلو میں بہترین ہو، اور جس کا طرزِ عمل ہر انتہا سے پاک ہو۔


قرآن میں امت مسلمہ کو "وسط" یعنی درمیانی امت کا لقب دے کر ان کی افضلیت اور اعتدال پر مبنی ذمہ داری کی وضاحت کی گئی ہے۔

---

امت وسط کے اہم پہلو

1. دینی معاملات میں توازن

اسلام نہ صرف ایک عبادتی نظام ہے بلکہ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ امت وسط کے تصور میں دینی اور دنیاوی معاملات کے درمیان توازن پر زور دیا گیا ہے:

دین کے معاملے میں نہ افراط کی اجازت دی گئی ہے اور نہ ہی تفریط کی۔

شریعت میں ہر عمل کے لیے حدود مقرر ہیں تاکہ انسان نہ اپنے آپ پر ظلم کرے اور نہ دوسرے پر۔

رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

"دین میں سختی نہ کرو، تم سے پہلے لوگ دین میں شدت اختیار کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوگئے۔" (مسند احمد)

2. عبادات اور دنیاوی معاملات میں توازن

اسلام عبادات کو اہمیت دیتا ہے لیکن دنیاوی ذمہ داریوں کو ترک کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

صحابہ کرام کے ایک واقعے میں جب چند لوگوں نے صرف عبادت کرنے یا دنیا کو ترک کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں متوازن رویے کی تلقین کی۔

آپ ﷺ نے فرمایا:

"تم میں سے بہترین وہ ہے جو عبادت بھی کرے اور دنیاوی زندگی کے فرائض بھی ادا کرے۔"

---

3. معاشرتی توازن

امت وسط کا ایک بڑا وصف معاشرتی توازن قائم رکھنا ہے۔ اسلام نے سماجی زندگی کے ہر پہلو میں عدل اور میانہ روی کو بنیاد بنایا ہے:

والدین کے حقوق، اولاد کے حقوق، بیوی اور شوہر کے تعلقات میں توازن کا حکم دیا۔

پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک اور کمزوروں کے حقوق کی پاسداری پر زور دیا۔

کسی بھی رشتے یا تعلق میں زیادتی یا کوتاہی سے بچنے کا حکم دیا۔

4. معاشی اعتدال

اسلام کا معاشی نظام "امت وسط" کے تصور کی بہترین مثال ہے:

اسلام نے سرمائے کی غیر منصفانہ تقسیم اور ظلم و استحصال کو حرام قرار دیا۔

زکوٰۃ اور صدقات کے ذریعے دولت کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا۔

سود جیسی معاشی برائیوں کو ممنوع کرکے معاشی انصاف کا نظام نافذ کیا۔

---

5. شہادت علی الناس

"امت وسط" ہونے کا سب سے بڑا تقاضا یہ ہے کہ امت مسلمہ انسانیت کے لیے حق و صداقت کی گواہ بنے۔

امت مسلمہ کو ایسا طرزِ عمل اپنانا چاہیے جو دوسروں کے لیے مشعلِ راہ بنے۔

اخلاقی، روحانی، اور عملی زندگی میں امت کو دنیا کے لیے ایک بہترین مثال بننا ہوگا۔

رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

"تم بہترین امت ہو، تمہیں لوگوں کی بھلائی کے لیے پیدا کیا گیا ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو۔" (آل عمران: 110)

---

امت وسط کی موجودہ دور میں اہمیت

موجودہ دور میں امت وسط کی حیثیت مزید اہم ہو گئی ہے۔

انتہا پسندی کا مقابلہ:امت مسلمہ کو اپنے کردار کے ذریعے شدت پسندی اور تعصب کا خاتمہ کرنا ہوگا۔

عالمی قیادت:دنیا اس وقت فکری اور اخلاقی بحران کا شکار ہے۔ امت مسلمہ کو قرآن و سنت کی روشنی میں اپنی زندگی گزار کر انسانیت کو راہ دکھانی ہوگی۔

اتحاد و اتفاق:امت مسلمہ کو فرقہ واریت اور اختلافات سے اوپر اٹھ کر ہے۔غلام مزمل عطا اشرفی (سہرسہ، بہار)


 کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

---

نتیجہ

امت وسط ہونا ایک اعزاز ہے لیکن اس کے ساتھ عظیم ذمہ داری بھی وابستہ ہے۔ امت مسلمہ کو چاہیے کہ وہ اعتدال، میانہ روی، اور عدل پر مبنی زندگی گزارے تاکہ دنیا کے لیے بہترین نمونہ پیش کرے۔ یہی امت وسط کی روح ہے، اور یہی اسلام کا پیغام۔

"اے امت مسلمہ! اپنے منصب کو پہچانو اور انسانیت کے لیے روشنی کا مینار بنو۔" 

----

ازقلم : غلام مزمل عطا اشرفی 

مقام:  سہرسہ بہار 


0 Comments

Post a Comment

Post a Comment (0)

Previous Post Next Post