پیشکش: نورادب
"موسمِ سرما اور چائے: ایک شاعرانہ سفر"
غزل: موسمِ سرما کی چائے
شامِ سرما، دھند کی گہری ردائیں
چائے کی خوشبو، لبوں پر مسکائیں
ٹھنڈے جھونکے، جاگتی یادوں کے موسم
کپ میں چھپے راز، قصے. سنائیں
سرخ شعلے، کہر کے سرد سائے
چائے کی گرمی، دلوں کو بہلائیں
چائے کا ہر گھونٹ ہے، لمحۂ راحت
بجھتے ہوئے خواب، پھر سے جلائیں
محفلیں آباد ہوں، قہقہے گونجیں
چائے کی محفل میں، سب پاس آئیں
سرد راتیں، اور عطا کی یہ غزل
چائے کے رستے، دلوں کو ملائیں
...
غزل: موسمِ سرما کی چائے
دھوئیں میں لپٹے وہ منظر حسین ہوتے ہیں
چائے کی محفل میں سب دل نشین ہوتے ہیں
کپ سے اٹھتی ہوئی خوشبو کی مہک دیکھو
یہ لمحے سرد رتوں کے رنگین ہوتے ہیں
گرم چائے، ٹھنڈے موسم کا ہے اِک جوڑ
یہ لطف اور کہیں شاید نہیں ہوتے ہیں
چاندنی رات، دسمبر کی وہ سرد ہوائیں
چائے کے ساتھ عجب دل کے مکین ہوتے ہیں
لبوں پہ لذتِ چائے، دلوں میں گرمی
یہ راز صرف سرما کے مہین ہوتے ہیں
عطا، چائے کی چسکیاں اور شاعری
محفلوں کے چراغ یہیں کہیں ہوتے ہیں
...
غزل: موسمِ سرما اور چائے
دسمبر کی راتیں، وہ جاگے ہوئے خواب
چائے کے گھونٹوں میں ڈھلتے ہوئے باب
ٹھٹھرتی ہوائیں، یہ. برفیلے لمحے
گرم چائے کی خوشبو، سکوں کے نصاب
چراغوں کی لرزش، وہ کانپتے ہاتھ
چائے میں ڈھونڈیں گے ہم دل کا جواب
یہ دھندلکے موسم، یہ سردی کی چادر
چائے کا ہر گھونٹ، کرے دل کو شاداب
برفوں کے دامن میں جلتی ہوئی آگ
چائے کے قصے، سرِ شام گلاب
عطا، چائے ہے زندگی کا وہ لمحہ
جو بھر دے رگوں میں محبت کا شباب
...
غزل: چائے اور سردی کا رشتہ
یہ سرد رتوں کا عجب اک فسانہ ہے
چائے سے جڑا ہر احساس پرانا ہے
ہوا کے جھونکے بھی سنگ سردی لاتے ہیں
چائے کے دم سے ہی دل کو سہانا ہے
کہر میں لپٹے ہوئے منظر اداس سے
چائے نے ہر بار ان کو سجانا ہے
سردی کی گود میں گرمی کا خواب ہے
چائے کے کپ نے ہی یہ راز پانا ہے
چمکتی راتوں میں دھواں اڑتا ہوا
چائے نے موسم کو اور مستانہ ہے
عطا، یہ رشتہ نہ ٹوٹے کبھی کہیں
چائے کا سردی سے وعدہ نبھانا ہے
...
غزل: موسمِ سرما کی چائے (غالب کے انداز میں)
چائے کی تاثیر نے پھر دل کو بہلایا
سرما کی اس سردی نے کیا کیا نہ دکھلایا
دھوئیں کا یہ جادو، کہ خیالوں کو جگا دے
چائے کے ہر گھونٹ نے خوابوں کو سلایا
کہر کی چادر میں وہ خاموشی کا عالم
چائے کے بہانے سے محفل کو مہکایا
سردی کی شدت سے لرزتے تھے جو دل بھی
چائے کی گرمی نے وہ طوفان تھمایا
گر پوچھے کوئی مجھ سے، سرما کا فسوں کیا؟
اک کپِ چائے اور سکوں ہم نے پایا
عطا، یہ محبت تو ہے جاڑے کی عطا ہی
چائے نے ہر دردِ زمانہ بھی بھلایا
...
غزل: موسمِ سرما کی چائے (اقبال کے انداز میں)
ہوائے سرد میں پنہاں پیامِ زندگی
چائے کے دم سے بیدار ہو نظامِ زندگی
چراغِ شامِ سحر، یہ شرر کی بستی ہے
چائے کا گرم گھونٹ ہو جامِ زندگی
خمارِ خواب سے اٹھ، دیکھ نقشِ ہستی کو
یہ چائے دے تجھے پھر سے مقامِ زندگی
جہاں کی دھند میں کھویا ہوا ہے دل تیرا
چائے کا راز ہے، اک اہتمامِ زندگی
سرد راتوں میں جگا جذبِ جستجو اپنا
عطا، یہ چائے ہے روحِ دوامِ زندگی
...
غزل: موسمِ سرما اور چائے (مشہور شعرا کے انداز کا امتزاج)
غالب کے رنگ میں:
دھوئیں کا ہر اک دائرہ راز سناتا ہے
چائے کا ہر گھونٹ دل کو بہلاتا ہے
اقبال کے طرز پر:
چائے ہے رمزِ حیات، لطفِ سحرگاہی
یہی شرابِ طرب ہے، یہی سحر شاہی
میر کی کیفیت:
ٹھنڈی ہوا کی زد میں ہے دل کا ہر خواب
چائے کے دم سے آیا سکون کا باب
فیض کی نرمی:
یہ دھند، یہ رات، یہ چائے کا لطفِ جاوداں
دلوں کے زخم پہ جیسے ہو مرہمِ نہاں
ناصر کاظمی کی سادگی:
جاڑے کی رات، چائے کا کپ اور خاموشی
یادوں کی گونج، بات پرانی، نئی خوشی
فراق کی گہرائی:
چائے کی گرمی میں چھپے درد کے قصے
برف میں جلتے ہوئے خوابوں کے سلسلے
عطا کی اختتامی بات:
یہ شاعری ہے عطا، موسمِ سرما کا نغمہ
چائے کے ہمرہ ہے دل کا ہر اک چراغِ تمنا
...
محترم قارئین،
اس غزلیات کے مجموعے "موسمِ سرما اور چائے: ایک شاعرانہ سفر" میں آپ نے جو چائے اور سرما کی خوبصورت دنیا دیکھی، اُمید ہے کہ یہ آپ کے دلوں میں ایک خاص مقام بنائے گی۔ موسم کی سرد ہوائیں اور چائے کے گھونٹ، جب شاعری کی خوبصورت لذت میں بدل جائیں، تو ایک نیا رنگ پیدا ہوتا ہے۔
آپ سے درخواست ہے کہ اپنے قیمتی خیالات اور تاثرات کا اظہار کریں تاکہ اس شاعری کے سفر کو مزید روشن کیا جا سکے۔ آپ کا ہر تبصرہ ہمارے لیے قیمتی ہے اور ہمیں اس تخلیق کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
برائے مہربانی اپنی رائے سے آگاہ کریں۔
شکریہ!
ازقلم
غلام مزمل عطا اشرفی
مقام: سہرسہ, بہار
Post a Comment