#انقلاب اور انقلابی کی ناکامی کی وجہ صرف یہ ہے #


 #انقلاب اور انقلابی کی ناکامی کی وجہ صرف یہ ہے #

اگر آج کے دور اور اِس کا تقابلی یا منطقی جائزہ لیا جائے تو حیران کن انکشافات ہوتے ہیں کہ آج دنیا میں جتنی بھی انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ جتنے تجربات کیئے گئے۔ نت نئیں ایجادات ہوئیں اور پوری دنیا کو جیسے ایک جگہ سمو کر رکھ دیا گیا ہو۔ اس کی مثال تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ملتیں۔

لیکن اتنی ترقی ہونے کے باوجود، یہ تمام آسانیوں اور سہولیات کی دستیابی کے باوجود وہ خلا اب بھی پُر نہیں ہو سکا۔ جوآج سے پہلے کم دیکھنے میں آتا تھا۔ بلکہ حقیقت اس کے مترادف ہے کہ آج کا یہ خلا اتنا گہرا اور طویل ہے

کہ جسے پُر کرنے کے لیئے اب شاید زمانے لگ جائیں گے۔

یہ خلا جس کے بارے میں ذکر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسے لفظی طور پر تو اظہارِتعلقی اور وابستگی یا اجتماعیت کا خلہ کہتے ہیں۔ یا آسان لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ یہ خلا ان رشتوں کو پُر نہ کرنے، اُن کا خیال نہ رکھنے اور اُن رشتوں کے تقدس اور اہمیت کا لحاظ نہ رکھنے کی وجہ سے بنتا ہے۔ جو ایک انفرادی اور احتماعی زندگیوں میں قدرے اہم ہوتے ہیں اوران کی عدم دستیابی معاشرتی بگاڑ کی وجہ بنتی ہے۔

آج کے سائنسی دور میں جیسے جیسے دنیا سمٹ کرانسان کی مٹھی میں آچکی ہے۔ ویسے ویسے وہ احساسات، جذبات، ادب و احترام ، محبت اور عزت کے تمام خوبصورت پہلو ناپید ہوتے جارہے ہیں۔

پہلے ان تمام ٹیکنالوجی کا فقدان ہوتا تھا۔ پھر بھی دل میں وہ جذبات ہوتے تھے۔ وہ چاہت ہوتی تھی۔ وہ عزت و احترام ہوتا تھا۔ جن کی بناء پر یہ جانتے بوجتے کہ ہمارا عزیز دنیا کے دوسرے کونے میں کیوں نہ ہو۔ خط و کتابت کے ذریعے، ڈاک کے ذریعے، سچے جذبات کی رونمائی ہوتی تھی۔ رشتوں کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے کی جستجو ہر وہ انسان کرتا تھا۔ جو وجہ بے وجہ اخلاق و رواداری کا پابند تھا۔ جو احترامِ انسانینت کا علم بردار تھا۔ جو رشتے نبھانا جانتا تھا۔ جو دِلوں میں بغض و کینہ نہیں رکھتا تھا۔ جس کا تعلق اپنے مقاصد کو تسکین دینا نہیں بلکہ ان اصولوں کی پیروکاری اور پابندی ہوتا تھا۔ جو ہم میں سے ہر ایک انسان پر شریعت کے احکامات کے مطابق لازم و ملزوم ہیں۔

پہلے ایک دوسرے کو وقت دیا جاتا تھا۔ ایک دوسرے کی خیر خبر لی جاتی تھی۔ ایک دوسرے کے سکھ دُکھ میں برابر شریک ہوا جاتا تھا۔ اُس دور میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے تمام بنیادی تقاضے پورے کیئے جاتے تھے۔ اُس دور میں ایک دوسرے کی مزاج پرسی کی جاتی تھی۔ چھوٹے بڑوں کا احترام کرتے تھے۔ بڑے چھوٹوں کو وقت دیتے تھے اور اپنے علم، تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں بچوں کی شخصی اصلاحی کوششیں کرتے تھے تاکہ ان کی آنے والی زندگیاں ہر لحاظ سے محفوظ ہوسکیں اور صحیح سمت میں گامزن ہو سکیں۔

پہلے کے دور میں ایک دوسرے کی عزت کی جاتی تھی۔ ایک دوسرے کا لحاظ کیا جاتا تھا۔ کسی کو زیر زبر کرنے کی سوچ تو درکنار، اگر کسی کو اپنے لفظوں اور برتاؤ کے حوالے سے ذرا سی بھی ٹھیس پہنچتی تھی تو نہ صرف اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کا گر ہر کسی کو آتا تھا بلکہ معافی مانگنے میں پہل کی جاتی تھی تاکہ رشتے برقرار رہ سکیں۔

درحقیقت وہ دور رشتوں کی سچائی کا دور تھا۔ اس دور کے لوگوں میں احساس تھا۔ دریا دلی تھی۔ پرہیزگاری تھی۔ اخلاقیات اور تہذیب و تمدن کی حقیقی ترجمانی کی جاتی تھی۔ تقویٰ، اخلاص، میانہ روی کا دور دورہ تھا۔ اپنے رشتوں کی بحالی کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا تھا۔ انا پرستی، خود غرضی جیسے انفرادی اور معاشرتی برائیوں کا نام و نشان نہیں ملتا تھا۔ ان روایات اوراصولوں کی پابندی تھی جن پر عمل کرکے ایک مثالی معاشرے کا قیام ہوتا ہے۔

دلیری تھی، بہادری تھی۔ حق و باطل کی تمیز تھی۔ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط تسلیم کیا جاتا تھا۔ کسی کی حق تلفی نہیں ہوتی تھی۔ کسی کو ذندہ درگور نہیں کیا جاتا۔ کسی کو بے عزت اور بے قدرہ نہیں کیا جاتا تھا بلکہ تمام تر حقوق کا باخوبی خیال رکھاجاتا تھا۔ اور کسی بھی قسم کا تفرقہ اپنی جڑیں مضبوط نہیں کر سکتا تھا۔ اور اس کی سب سے بڑی وجہ اتحاد تھا۔ اس دور میں ضمیر نہیں بکتے تھے۔ رشتوں کی نیلامی نہیں ہوتی تھی۔

غرض کے وہ دور آج کے دور کے مقابلے میں اتنا مثالی تھا کہ شاید اگر آج کے وقت کی یہ تمام سہولیات جو چاہے شوشل میڈیا کی کوئی بھی شکل رکھتی ہیں۔ اس دور میں متعارف ہوتیں۔ تو بہت کم عرصے میں اپنا وجود کھو دیتیں کیونکہ چاہے کچھ بھی ہو۔ یہ ایک ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ اگر انسان کے اپنے دل میں وہ سچائی ہو، رشتوں کا تقدس و احترام ہو۔ اگر انسان خود اپنے قول و فعل میں یکساں ہوتو کوئی چیز بھی اسکے اصولوں کی بنیادوں کو ہلا نہیں سکتی۔

لیکن افسوس صد افسوس کہ اب کہنے کو تو یہ بہت آسان ہے لیکن آج کے دورمیں ایسی مثالیں اب تاریخ کے اوراق میں ہی پڑھنے کو ملتی ہیں۔ اب نہ وہ احساس رہا اور نہ احساسِ ذمہ داری رہی۔ اب نہ وہ احترام رہا بلکہ اسکی جگہ دوسروں کو بے عزت کرنے، تذہیق کرنے اور اپنے گھمنڈ کے پہاڑ تلے روندنے کا رواج عام ہے۔

اب غیراخلاقی اورمعاشرتی بے راہ روی کے اصولوں پر چلتے ہوئے ان تمام حدوں کو توڑنے کا رجحان عام ہے جسکی وجہ سے آج کا معاشرہ ایک ایسے اجڑے گھر کی عکاسی کرتا ہے۔ جسکی بنیادیں وقت کے ساتھ ساتھ گلتی جا رہی ہیں اور وہ وقت دور نہیں جب آج کے دور کی یہ شکستہ عمارت جس میں ہم سب مکین ہے۔ اپنی طاقت کھو دے اور ایک ذرا سے جھٹکے سے یہ عمارت زمین بوس ہو جائے۔


🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷


نوٹ:

ہماری اخلاقی، معاشی، تہذیبی، معاشرتی تبدیلی اور درستگی کا انحصار صرف اور صرف دنیاوی تعلیم و تربیت پر نہیں بلکہ ٱللّٰه سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى‎ کے احکامات اور ٱللّٰه سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى کے پیارے رسول مُحَمَّد صَلَّى ٱللّٰهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ‎ کی سنت اور تعلیمات پر عمل پیرا ہو کرکے ہی اپنی اصلاحی کوششوں کو تقویت دی جاسکتی ہے اور اپنی دنیا اور آخرت کو سنوارا جا سکتا ہے۔

طالب دعا: غلام مزمل عطا اشرفی (سہرسہ بہار)

0 Comments

Post a Comment

Post a Comment (0)

Previous Post Next Post