ازقلم: غلام مزمل عطا اشرفی (سہرسہ بہار)
نیند میں کوئی اور ہے خوابوں میں کوئی اور
فکر میں کوئی اور ہے آہوں میں کوئی اور
صبح میں شام میں دن و رات میں کوئی اور
سامنے کوئی اور ہے جاموں میں کوئی اور
سخن کسی اور سے لقاء وصل کسی اور سے
تنہائی میں کوئی اور ہے محفلوں میں کوئی اور
نہ پسند ہے مجھے عاشقی نہ ہی مجھ میں سادگی
ساتھ میرے کوئی اور ہے باہوں میں کوئی اور
نہ اثر ہے مجھ پہ کسی حسن کا نہ غرور خود کی ذات پر
زیست میں کوئی اور ہے سانسوں میں کوئی اور
یہ میرے آرزو کی انتہا کہ پسند میری جدا جدا
ہوش میں کوئی اور ہے ہوسوں میں کوئی اور
کیسے بتاؤں میں"عطا"میرے لیے کون کون ہے
روح میں کوئی اور ہے دھڑکنوں میں کوئی اور
Post a Comment