پیشکش: نورادب
اہل بیت رضوان اللہ تعالی کی شان میں منقبت
عروج پر بھی زمیں کا سہارا یہی تو ہیں،
فلک کے تاج میں جو ستارا یہی تو ہیں۔
جہاں کے ہر عمل کا اجالا یہی تو ہیں،
خدا کے نور کا استعارا یہی تو ہیں۔
حسینؑ و حسنؑ کے قدموں کی خاک ہے،
جو عرشِ پاک پر بھی گوارا یہی تو ہیں۔
علیؑ کا ذکر ہو تو شجاعت کھلی ملے،
بتولؑ کے لیے ہے جو دارا یہی تو ہیں۔
یہ فاطمہؑ کی گود کے تارے عجیب ہیں،
جہاں کے واسطے بھی نظارا یہی تو ہیں۔
اگر طلب ہو ہدایت کی رہبری عطا،
تو جان لے کہ بس وہ سہارا یہی تو ہیں۔
.....
اہل بیت رضوان اللہ تعالی کی شان میں منقبت
زمین پر ان کے قدموں کا بوسہ جہاں لے،
کہ جن کے دم سے چمکتا ہے ہر آسماں لے۔
یہی تو ہیں جو چراغِ حرم کے امیں ہیں،
یہی ہیں جن کے تصدق ہو سب کے گماں لے۔
حسینؑ نام ہے جن کا وفا کا عنوان،
کہ جن کی خاک میں پوشیدہ رازِ نہاں لے۔
علیؑ کا عزم، جو ہر معرکے میں دکھا دے،
یہی ہے وہ کہ جہاں کا ہر اک کارواں لے۔
بتولؑ، نور کی صورت، حیا کی علامت،
جنہیں خود رب نے عطا کی رضا کا نشاں لے۔
یہ اہل بیتؑ کے ہیں سلسلے کے چراغاں،
خدا کا وعدہ ہے، ان کو سدا کہکشاں لے۔
عطا کے دل میں ہمیشہ رہے ان کی چاہت،
وہی ہیں جن کی محبت سے سب کو اماں لے۔
....
اہل بیت رضوان اللہ تعالی کی شان میں منقبت
علیؑ کا ذکر کرو، جس سے حق عیاں ہو جائے،
وہ شیرِ حق ہیں، جنہیں پرچمِ جہاں ہو جائے۔
حسنؑ کی صبر کی باتیں جہاں کو درس دیں،
کہ ان کے نقش سے گلزار گلستاں ہو جائے۔
حسینؑ وہ ہیں، جو ہر ظلم سے لڑے تنہا،
جنہیں دیکھے تو خود باطل بھی نداماں ہو جائے۔
بتولؑ پاک ہیں، عورت کی شان و عصمت ہیں،
کہ جن کے نور سے ہر دل گلِ جناں ہو جائے۔
یہ اہل بیتؑ ہیں، اللہ کے پسندیدہ،
یہی دعا ہے کہ ان سے دل بیاں ہو جائے۔
عطا بھی ان کے چراغوں کی روشنی مانگے،
کہ ان کے در سے مقدر بھی ضیاء ہو جائے۔
...
اہل بیت رضوان اللہ تعالی کی شان میں منقبت
علیؑ ہیں جن کی شجاعت کا ہے زمانہ گواہ،
وہی ہیں نورِ خدا، حق کا ہے جن سے نباہ۔
حسنؑ کی صبر کی عظمت کو کیا بیان کریں،
وہی جو امن کا پرچم ہیں، راہِ دین کا راہ۔
حسینؑ نام ہے قربانیوں کی ایک مثال،
کہ جن کے خون سے زندہ ہے آج بھی یہ فلاح۔
بتولؑ نام ہے عصمت، حیا، وقار، جمال،
کہ جن کی شان پہ رب نے بھی کی ہے اپنی نگاہ۔
یہی ہیں اہلِ محبت، یہی ہیں دین کی روح،
یہی ہیں نورِ ہدایت، یہی ہیں رختِ گواہ۔
عطا کا دل ہے معطر انھی کے ذکر سے،
یہی دعا ہے کہ مل جائے ان کی چاہ کی راہ۔
.....
اہل بیت رضوان اللہ تعالی کی شان میں منقبت
علیؑ کا ذکر ہو، روشن ہو ظلمتوں کا جہاں،
وہی ہیں جن سے ملا ہے ہر ایک کو یہ اماں۔
حسنؑ کا صبر ہو یا حلم کی وہ باتیں ہوں،
ہوا ہے ان کے کرم سے ہر ایک دل گلستاں۔
حسینؑ راہِ وفا کے علمبردار ہیں وہ،
جنہوں نے دے کے لہو کر دیا حق کو عیاں۔
بتولؑ وہ ہیں جو معصومیت کا محور ہیں،
کہ جن کی گود سے پائے زمانے نے خزاں۔
یہی ہیں دین کے رکھوالے اور چراغِ یقین،
یہی ہیں جن سے بنا دین کا ہر اک کارواں۔
عطا کی آنکھ کا تارا یہی تو ہیں سبھی،
کہ جن کے نام سے قائم رہے گا یہ جہاں۔
.....
اہل بیت رضوان اللہ تعالی کی شان میں منقبت
محبت اہل بیتؑ کی ہر دل کا ایمان ہے،
یہی تو اصلِ دین ہے، یہی رحمت کا نشان ہے۔
یہی ہیں نورِ ہدایت، یہی چراغِ وفا،
کہ ان کے ذکر سے روشن ہر ایک دل و جان ہے۔
علیؑ کی ذات شجاعت کا اک جہاں ہے تمام،
حسینؑ کا صبر و قرباں خدا کی پہچان ہے۔
بتولؑ پاک کی عصمت ہے رہنمائی کا فن،
یہی جو ہر مسلماں کے لیے چراغان ہے۔
خدا کے حکم سے لازم ہے ان سے الفت رکھو،
کہ ان کی چاہ میں شامل حیات کا سامان ہے۔
محبت ان کی نہیں تو، نہ دین کچھ معتبر،
یہی تو اصلِ ہدایت، یہی رضا کا گمان ہے۔
عطا یہ کہہ رہا ہے، محبت ان سے وفا،
کہ ان کے در سے ہی روشن دلوں کا ایمان ہے۔
......
از قلم: غلام مزمل عطا اشرفی
مقام: سہرسہ, بہار
Post a Comment