پیشکش: نورادب
غزل:1
زندگی کیا ہے؟ فقط راز کا پردا ہے کوئی
جس کے اندر بھی تو اک خواب کا قصہ ہے کوئی
راستے گم ہیں، نشانوں کی کمی ہے ہر سو
کیا یہ ممکن ہے کہ منزل کا بھی رستہ ہے کوئی؟
ایک لمحے میں حقیقت کی تجلی دیکھی
پھر یہ جانا کہ یہ لمحہ بھی دھوکہ ہے کوئی
عقل کہتی ہے کہ ہر بات کی حد ہے، لیکن
دل یہ کہتا ہے کہ محدود نہ کیا ہے کوئی
ہم جو خود اپنی حقیقت کو نہ سمجھیں اب تک
کس کو معلوم کہ ہم سے بھی چھپا ہے کوئی؟
وقت کے ساتھ ہر اک چیز فنا ہو جائے
پھر بھی ہر دل میں بقا کا ہی تقاضا ہے کوئی
عطا، سوچیں تو یہ کائنات حیرت ہے محض
ہر ستارے کے پس پردہ تماشا ہے کوئی
----
غزل:2
عقل حیران ہے، دل چپ ہے، زباں بولتی ہے
کیا یہ دنیا کسی خواب کی فقط جھلک دکھاتی ہے؟
دیکھنے والی نظر کچھ بھی نہ دیکھے ورنہ
یہ حقیقت بھی تو دھوکے کی ادا لگتی ہے
ہر قدم پر ہے کوئی نقش جو مٹتا ہی نہیں
زندگی کون سی کہانی ہمیں دہراتی ہے؟
وقت بہتا ہے مگر رُک سا گیا ہے دل میں
یہ جو احساس ہے، کیا موت کے در سے آتی ہے؟
کون جانے کہ کہاں ختم ہوا یہ رستہ
ہر مسافر کو یہاں مٹنے کا خوف ستاتی ہے
عطا، سوچ کے دائرے میں قید ہوں ہم سب
کائنات اپنی حقیقت بھی چھپائے جاتی ہے
---
غزل:3
یہ جو لمحے ہیں، یہ یادیں ہیں کہ دھوکا ہے کوئی
زندگی ایک تماشہ یا تماشا ہے کوئی
ہم جو سمجھیں تھے حقیقت، وہ سرابوں کا سفر
ہر قدم راہ میں سایہ ہے کہ صحرا ہے کوئی
شور کرتے ہیں جو دنیا کے اصولوں پہ سوال
ان کے ہونٹوں پہ بھی خاموشی کا پہرا ہے کوئی
اک حقیقت ہے جو محسوس تو ہوتی ہے، مگر
چشمِ بینا سے بھی پردے میں چھپا سا ہے کوئی
وقت تھمتا نہیں، بہتا ہے مسلسل لیکن
کیا یہ دریا بھی کبھی ختم ہوا سا ہے کوئی؟
دل کے آنگن میں عجب شور ہے گزرے لمحوں کا
یہ سکوتِ غمِ فردا ہے کہ صدمہ ہے کوئی
عطا، سوچ کا محور ہے یہی کائناتِ شوق
یہ زمیں، یہ فلک، سب میں گواہ سا ہے کوئی
---
غزل :4
کون ہوں، کیوں ہوں، یہ سوال سہارا ہے کوئی
میرے اندر کسی گم راہ کا سایہ ہے کوئی
روشنی خواب ہے یا خواب کا پردہ شاید
دھوپ کے ساتھ میرے ساتھ بھی جلتا ہے کوئی
زندگی سانس کی زنجیر ہے یا کچھ اور؟
ہر نفس پوچھ رہا ہے کہ یہ کیا ہے کوئی
ہر قدم ساتھ چلے، پھر بھی دکھائی نہ دیا
یہ جو رستہ ہے، مرے ساتھ ہی تنہا ہے کوئی
میں جو سمجھا تھا کہ سب راز کھلے ہیں مجھ پر
اب یہ دیکھا کہ ہر اک راز میں پردہ ہے کوئی
عطا، فکر کی گہرائی کو چھونا چاہوں
پھر پلٹ آتا ہوں، شاید یہ بھی دھوکہ ہے کوئی
---
غزل:5
ہم کو دیکھا تو لگا آئینہ حیرت میں تھا
اک تماشا تھا جو رستے میں حقیقت میں تھا
خود سے باہر نکلے، خود کو نہ ڈھونڈا ہم نے
دشتِ امکاں میں کہیں شہر محبت میں تھا
خواب بھی نیند کی دہلیز پہ رُک جاتے ہیں
راز کوئی تو مرے دھیان کی وحشت میں تھا
وقت تھم جائے تو احساس بکھر جاتا ہے
زندگی کا جو سفر تھا، وہ قیامت میں تھا
ہر قدم سوچ کا دروازہ ہی کھلتا نہ تھا
کچھ جوابوں کا سراغ شاید فطرت میں تھا
عطا، پلکوں پہ جو بیٹھا تھا ستارہ بن کر
وہی سایہ مرے اندیشۂ وحدت میں تھا
---
ازقلم : غلام مزمل عطا اشرفی
مقام: سہرسہ,بہار

Post a Comment