پیشکش: نورادب
"فلسطین کی سرزمین: حق و باطل کی گونج"
غزل
یہ دل تڑپ کے بارہا، یہ دعا مانگتا رہا
ظلمت کے سامنے، جلائے دیا مانگتا رہا
فلسطین کی زمین پہ خون کا جو کھیل ہے
میری وفا کا دل، خدا سے سدا مانگتا رہا
ہر اک گلی ہے سرخ اب، لہو کے رنگ سے
حق کے لیے یہ کارواں، تو وفا مانگتا رہا
یہ کونسی ہے جنگ جو، امن کو مٹا گئی؟
چاہت کے بیج، ہر کوئی پھر لگا مانگتا رہا
زخموں پہ مرہم کب ملے، جواب دے خدا
ہر اک مظلوم آس میں، ہی شفا مانگتا رہا
عطا - دعا ہے ظلم کا یہ دور ختم ہو
عدل کا نور، ہر طرف، یہ ضیا مانگتا رہا
...
غزل
زمیں پہ خونِ دل کی کہانی رقم ہوئی
فلسطین کی گلی میں یہ شبنمی قسم ہوئی
ہر ایک زخم گہرا ہے، ہر ایک دل فگار
کہ زندگی یہاں پہ فقط ایک غم ہوئی
مسجدوں کی اذانوں میں لرزاں ہے دعا
کہاں گئی وہ صبح جو عہدِ کرم ہوئی
سحر کی آس میں ہیں ستارے بھی اداس
کہ ظلمتوں کی رات بہت ہی ستم ہوئی
یہ کون سی وفا ہے جو خوں میں نہا گئی؟
یہ کون سی قضا ہے جو صبحِ حرم ہوئی
عطا - دعا یہی ہے کہ ظالم فنا ہو جائے
زمیں پہ عدلِ حق کی اگر یہ قسم ہوئی
...
غزل
لہو سے گلستاں کی فضا سرخ ہو گئی
ظلمت کی ہر ادا یہاں تاریخ ہو گئی
اقبال کی صدا بھی گواہی دے رہی ہے
کہ حق کی جنگ وقت کی تحریر ہو گئی
غالب کی چشمِ فکر نے یہ حال دیکھ کر
اشکوں سے آسمان کی تصویر ہو گئی
میر کے لفظ آج بھی دل کو جگا گئے
ہر آہ دردِ دل کی تعبیر ہو گئی
یہ کربلا کا درس ہے، ظالم فنا ہی ہو
ہر قربانی حیات کی توقیر ہو گئی
عطا- دعا یہی ہے کہ حق سرخرو رہے
یہ جنگ حق و باطل کی تدبیر ہو گئی
...
غزل
دل سے جو ہو بلند، صدا بن کے آئے گی
فلسطین کی زمیں پہ ضیا بن کے آئے گی
ہو دردِ دل، ہو نالۂ مظلوم کی صدا
ہر اک دعا فلک سے دعا بن کے آئے گی
یہ خونِ خاکِ وطن، یہ لہو کے چراغ
اندھیروں میں بھی شمعِ وفا بن کے آئے گی
غالب کے دل کا درد ہو، میر کی نظر
یہ داستانِ غم بھی ادا بن کے آئے گی
اقبال کے خیالات، ہو نصرت کی بات
کہ بے بسی امیدِ خدا بن کے آئے گی
عطا بھی خاکِ راہ پہ لکھے گا انقلاب
کہ ہر کلام اب صدا بن کے آئے گی
...
ازقلم: غلام مزمل عطا اشرفی
مقام: سہرسہ, بہار
Post a Comment