سرد موسم کی دلکش غزلیں

پیشکش: نورادب


غزل

ٹھنڈ کی  شدت نے دل کو دہلایا  آج

یاد کا موسم بھی دل میں چھایا آج


دھوپ کی آس میں دن بیت گیا مگر

چاندنی نے ہر طرف سایہ چھایا آج


لب پہ لرزاں دعائیں بھی جم گئیں

وقت نے کیسا  یہ منظر دکھایا  آج


شام کے دھندلکے میں کچھ خواب سے

چاہتوں   نے   ایک   دیپ   جلایا   آج


صحن میں برف کی چادر سی بچھی ہے

یاد   نے   دل   کا   کنارہ    جلایا    آج


عطا دل کے موسم بھی کہہ رہے

کوئی پلکوں پہ خواب سا آیا آج

...

غزل

کراکے کی سردی، ہوا کے تیور

لرزتے بدن اور خواب کے منظر


چمکتی دھوپ بھی تھک کے چھپ گئی ہے

کہاں    ہے     گرمی  ،  کہاں    کے   محور


چراغ  جلتے  ہیں تھرتھراتے ہوئے

ہوا کے جھونکے ہیں جیسے خنجر


گلیاں بھی خاموش، راستے سونے

ہر  اک طرف  برف کے  ہیں منظر


عطا دل میں بھی عجب خزاں چھائی

یہ   موسمں  لے  آیا   درد   کے   دفتر

...

غزل

کراکے کی سردی کا عالم سہارا نہیں
ہوا کا  جھونکا  بدن  پر گوارا   نہیں

یہ چاندنی بھی ٹھٹھرتی سی لگتی ہے
چراغ    جلتا   ہے   لیکن  اجالا    نہیں

گلی گلی میں سکوت اور برف کا راج
کوئی  صدا ہے  نہ کوئی  اشارا   نہیں

ہوا کے تیور بھی خنجر سے کم نہیں
یہ رات ایسی ہے  جس کا کنارا نہیں

عطا غزل میں بھی تھرتھراہٹ جھلک رہی
یہ دردِ  موسم  ہے  جو ہم  سے  ہارا   نہیں
...

غزل

کراکے کی سردی کا عالم عجیب ہے
ہر  ایک   منظر  ہوا  کے  قریب  ہے

ہوا کی لہریں بدن سے الجھ گئیں
چراغ  بجھنے کو جیسے رقیب ہے

یہ دھند دھیرے سے سب کچھ چھپا گئی
کہیں بھی روشنی  کا نہ کوئی نصیب  ہے

قدم قدم  پر  ہے  برف کی  سلگن
گلی گلی میں سکوت کا نصیب ہے

عطا.  دل  کو  بہلا  نہ   پایا   کوئی
یہ سرد موسم بھی جیسے غریب ہے
...

غزل

کراکے  کی  سردی  ہے  خنجر   کی  دھار  سی
چبھتی ہے جسم و جاں میں ہوا یوں غبار سی

برف کے  موسموں  نے رگوں  کو جما  دیا
چلتی ہے سانس جیسے ہو بوجھ ہزار سی

رات کی دھند میں  چھپ  گیا آفتاب  بھی
دھوپ بھی آج لگتی ہے دھوکے کے وار سی

چیخیں ہوا کی کان میں شور مچائیں ہیں
ٹھنڈ نے  روح تک  میں اتاری  ہے خار  سی

عطا.  یہ   زندگی  کا  عذابِ  شدید   ہے
موسم کی بے رخی ہے ستم بے شمار سی

...

ازقلم: غلام مزمل عطا اشرفی
مقام: سہرسہ, بہار 

0 Comments

Post a Comment

Post a Comment (0)

Previous Post Next Post