پیشکش: نورادب
"لبیک کہہ رہا ہے لہو" — ایران و فلسطین کے مظلوموں کی پکار، اسرائیل و امریکہ کے خلاف ایک مدلل احتجاج
غلام مزمل عطا اشرفی
---
🔰 تمہید:
جب ظلم حد سے بڑھ جائے، اور دنیا کے ادارے خاموش تماشائی بن جائیں، تب قلم کو تلوار بننا پڑتا ہے۔
ایران و اسرائیل کی جنگ، امریکہ کی کھلی مداخلت، اور فلسطین کی چپہ چپہ پر بہتا ہوا مظلوموں کا خون — سب انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں۔
یہ تحریر اور غزل، صرف شاعری یا جذباتی فریاد نہیں، بلکہ وہ احتجاج ہے جو جنگی قوانین، انسانی حقوق، اور امتِ مسلمہ کی غیرت کی روشنی میں ایک حرفِ حق بلند کرتی ہے۔
---
🧭
ایران و اسرائیل تنازع: ایک خونچکاں پس منظر
اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسیاں اور ایران کی فلسطینی حمایت، برسوں سے ایک ٹکراؤ کا سبب رہی ہیں۔ حالیہ جھڑپوں میں اسرائیل نے جس طرح ایرانی اہداف کو نشانہ بنایا اور امریکہ نے اس میں فوجی و عسکری مدد فراہم کی، وہ بین الاقوامی جنگی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
امریکہ: امن کا نام نہاد علمبردار یا عالمی جارح؟
امریکہ کی خارجہ پالیسی ہمیشہ سے "اپنے مفاد" پر مبنی رہی ہے۔ عراق، افغانستان، شام، لیبیا کے بعد اب ایران کو بھی اسی جنگی ایجنڈے کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ اسرائیل کو کھلی مدد، اور اقوام متحدہ میں اس کے جرائم کی ڈھال بننا، امریکہ کو ایک طرفہ انصاف کے نظام کا "خدا" بنا چکا ہے۔
جنگی قوانین کی پامالی
جینیوا کنوینشن کے تحت شہریوں، زخمیوں اور غیر مسلح افراد پر حملہ جنگی جرم ہے۔
اقوام متحدہ کا چارٹر خودمختار ریاست پر حملے کی ممانعت کرتا ہے۔
ہیگ کنوینشنز، جنگی اخلاقیات پر زور دیتے ہیں جنہیں اسرائیل و امریکہ نے پامال کر دیا۔
مسلم دنیا کا سکوت
افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ مسلم ممالک کی اکثریت یا تو خاموش ہے، یا دشمنوں کی صف میں کھڑی ہے۔ ایران کی حمایت کرنے والا کوئی نہیں، سوا چند قوموں کے۔ یہی وہ وقت ہے جب امت مسلمہ کو بیدار ہونا چاہیے تھا۔
---
🎙️ احتجاجی غزل
🌹 لبیک کہہ رہا ہے لہو، اے ضمیر سن!
لہو سے لکھا میں نے افسانۂ جرأتیں
ابھرنے لگی ہیں نئی پھر سے شوکتیں
بموں کی بارشیں ہوں، کہ گولی کی زہمتیں
نہ مٹ سکیں گی سجدے، نہ جھک سکیں حرمتیں
غزہ، قُم و یمن ہوں، کہ شام و حلب کے لوگ
سناتے ہیں لبوں سے حسینی حکایتیں
ستم کی ہر گھڑی میں ندا آ رہی یہی
خدا کے بندے کرتے نہیں خفتِ زلتیں
ہزار بار ٹوٹیں سپرپاوروں کی گرد
کہ حق کی ضرب رکھتی ہے حیدر سی طاقتیں
جو بیچتے تھے کل تک ضمیر اپنے دام پر
وہ اب بھی نوچتے ہیں بشر کی کرامتیں
اٹھو کہ خون کہتا ہے وقتِ خروش ہے
نہ دیکھو اور سنو بس، دکھاؤ بصیرتیں
مقطع:
عطا نے دیکھی ظلمت، تو شعر میں ڈھل گیا
صدا بنی ہے حرفوں سے زندہ شہادتیں
---
📝 اختتامیہ
یہ غزل اور مضمون ایک صدا ہے مظلوموں کے حق میں، اور ایک للکار ہے ظالموں کے خلاف۔
یہ اشاعت آپ کے ضمیر کو جھنجھوڑے، یہی اس کا مقصد ہے۔
قلم کی حرمت تب ہی بچتی ہے، جب وہ حق کے لیے جھکے اور باطل پر ٹوٹے۔
Post a Comment