اہل بدعت کے ذبیحے کا حکم؟
حضرت علامہ مدنی میاں دام ظلہ کے بیان کی توضیح اوربعض حضرات علماکے شبہات کا ازالہ!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذیشان احمد مصباحی
استاذ: جامعہ عارفیہ، سید سراواں، کوشامبی، یوپی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلی قسط-اصل مسئلہ کی تفہیم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حلال جانور اگر اللہ کے نام کے ساتھ ذبح کیا جائےتو اس کا کھانا حلال ہے، اِلا یہ کہ شریعت نے ذبح کے بعض شرائط بیان کیے ہیں، جن کی پاس داری ضروری ہے۔ ذبح ہونے والے جانور کے سلسلے میں فقہا نےمتعدد شرائط ذکر کیے ہیں جن میں یہ دوباتیں خاصی اہم ہیں:
۱-ذبح کرتے وقت وہ جانور زندہ ہو۔ ۲-ذبح کرنے کے سبب ہی اس کی روح نکلے۔
اسی طرح ذبح کرنے والے کے سلسلے میں بھی فقہا نے متعدد شرائط ذکر کیے ہیں، جن میں یہ دو باتیں بہت اہمیت رکھتی ہیں:
۱-ذبح کرنے والا عاقل ہو۔ ۲-ذبح کرنے والا مسلمان یا کتابی ہو
۔
اس آخری پوائنٹ کی وضاحت میں علما نے لکھا ہے کہ بت پرست اور مجوسی کا ذبیحہ جائز نہیں ہے اور یہ بات اہل اسلام کے یہاں متفق علیہ ہے۔ اہل علم نے اس کی توجیہ یہ فرمائی ہے کہ چوں کہ یہ حضرات خلوص کے ساتھ اللہ کا نام نہیں لےسکتے۔ کیوںکہ بت پرست یا تو ذبح کرتے ہوئے اپنے بتوں کا نام لیتے ہیں یا انہیں اپنے بتوں کے آستانوں پر ذبح کرتے ہیں اور قرآن نے ان دونوں ذبیحوں کو حرام کردیا ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
وَ مَا اُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللّٰهِ ۔’’اللہ تعالیٰ نے تم پرغیراللہ کے نام کاذبیحہ حرام کردیا ہے۔‘‘ ( البقرۃ: ۱۷۳)
وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِاورجو بتوں کے آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو، اسے بھی حرام کردیا گیا ہے۔(المائدۃ: ۳)
اور جہاں تک مجوسیوں کی بات ہے تو وہ ذبح کرتے وقت کسی کا نام نہیں لیتے اور ان کے تعلق سے پیغمبر اسلام ﷺ نے یہ خاص تاکید فرمائی ہے کہ مجوس کے ساتھ نکاح کرنے اور ان کا ذبیحہ کھانے کے علاوہ ان کے ساتھ وہی سلوک کرو جو اہل کتاب کے ساتھ کرتے ہو۔سُنُّوا بِهِمْ سُنَّةَ أَهْل الْكِتَابِ غَيْرَ نَاكِحِي نِسَائِهِمْ وَلاَ آكِلِي ذَبَائِحِهِمْ.(موطا، بیہقی، ابن ابی شیبہ وغیرہ بسند ضعیف)چوں کہ مرتد بھی غیر مسلم ہوتا ہے، اس لیے علما نے اس کا ذبیحہ بھی بت پرست کے ذبیحے سے ملحق کردیا ہے۔
گذشتہ دنوں کچھوچھہ مقدسہ کے نامور اور اہم ترین شخصیت علامہ سید محمد مدنی میاں اشرفی مدظلہ العالی کے ایک ویڈیو بیان کے بعداہل بدعت کے ذبیحے کے جواز وعدم جواز کےسلسلے میں ایک بحث نکل پڑی، جس میں بعض بحث کرنے والےتحقیق و شرافت کے دامن سے دست بردار ہوتے نظر آئے، جو افسوس ناک ہے۔ علامہ مدنی میاں صاحب حفظہ اللہ سے در اصل موجودہ عہد کے وہابی حضرات کے ذبیحے سے متعلق سوال کیا گیا تھا،جسے آپ نے جائز کہا تھا،اب یہاں ایک دوسری بحث بھی نکل پڑی کہ موجودہ وہابی اور دیوبندی حضرات کس زمرے میں آتے ہیں؟، اہل بدعت میں آتے ہیں،یا اہل کفروارتداد میں آتے ہیں؟یہی سوالات اس تحریر کا باعث ہیں۔ واللہ ھوالھادی وھوالموفق للسداد!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وَ مَا اُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللّٰهِ کی تفسیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس بحث کا غالب حصہ آیت کریمہ وَ مَا اُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللّٰهِ( بقرہ:۱۷۳)سے متعلق ہے۔ اس لیے اس کی قدرے تفسیر وتوضیح ضروری ہے۔اس کی تفسیر میں امام فخر الدین رازی (۱۲۱۰ء) لکھتے ہیں:
’’اِھلال رفع صوت کو کہتے ہیں۔ جو شخص بھی اپنی آواز بلند کرے اسے مُہِلّ کہا جائےگا۔ ابن احمر نے کہا:
یُھِلُّ بِالْفَدفَدِ رُکبَانُھَا
کَمَا یُھِلُّ الرَّاکِبُ الْمُعْتَمِرُ
میدان جنگ میں مجاہدین ایسے ہی اپنی آواز بلند کرتے ہیںجیسے کوئی سوار حاجی بلند آواز سے تکبیر کہتا جارہا ہو۔
یہ اِھلال کا لغوی معنی ہے۔ پھر احرام پوش کو بھی مُہِلّ کہا جاتا ہے؛ کیوںکہ احرام پوشی کے وقت وہ بلند آواز سے صدائے تکبیر بلند کرتا ہے۔ یہیاِھلال کا مفہوم ہے۔ جب کوئی شخص حج یا عمرہ کا احرام باندھ لےتو کہا جاتا ہے:أَھَلَّ فُلَانٌ بِحَجَّۃٍ أوْعُمْرَۃٍ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ احرام پوشی کے وقت حاجی زور زور سے لبیک کی صدائیں بلند کرتا ہے۔ اسی طرح ذبح کرنے والے کو بھی مُہِلّ کہا جاتا ہے، کیوں کہ عرب ذبح کرتے وقت بتوں کو اپنی بات سناتے تھے اور بلند آواز سے ان کانام لیتے تھے۔ اسی سے اِسْتَھَلَّ الصَّبِیُّ ماخوذ ہے۔ یہ اس وقت بولا جاتا ہے جب بچے کی آواز بلند ہوتی ہے۔ اب ارشاد باری: وَ مَا اُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللّٰهِ کا مطلب یہ ہواکہ جو بتوں کے لیے ذبح کیا گیا۔ مجاہد، ضحاک اور قتادہ کا یہی قول ہے، جب کہ ربیع بن انس اور ابن زید کہتے ہیں اس کے معنی ہیں وہ جانور جس کو ذبح کرتے ہوئےغیراللہ کا نام لیا گیا ہو۔ یہ قول زیادہ مناسب ہے؛ کیوںکہ یہ مفہوم لفظ سے زیادہ قریب ہے۔
علما کہتے ہیں کہ اگرمسلمان کسی غیراللہ کے تقرب کی نیت سے جانور ذبح کرتا ہے تو وہ مرتد ہوجائےگا اور اس کا ذبیحہ مرتد کے ذبیحے کے حکم میں ہوگا اور یہ حکم اہل کتاب کے ذبیحےکے لیے نہیں ہے؛ کیوں کہ اہل کتاب کا ذبیحہ حلال ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَ طَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حِلٌّ لَّكُمْ۵(مائدہ)اہل کتاب کا ذبیحہ تمہارے لیے مباح ہے۔
مزید فرماتے ہیں:
بعض علما اِس طرف گئے ہیں کہ اس سے بت پرستوں کا ذبیحہ مراد ہےجو اپنے بتوں کے لیے جانور ذبح کرتے ہیں، جیساکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ اورجو بتوں کے آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو، اسے بھی حرام کردیا گیا ہے۔ (المائدۃ: ۳) یہ حضرات عیسائیوں کے ذبیحے کو حلال کہتے ہیں، خواہ وہ سیدنا مسیح علیہ السلام کے نام پر کیوں نہ کررہا ہو۔ عطا، مکحول، حسن بصری، شعبی اورسعید بن مسیب کا یہی مذہب ہے،جب کہ امام مالک،امام شافعی، امام ابوحنیفہ اور اُن کے اصحاب اُسے حرام کہتے ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جب اُنھوں نے جناب مسیح کے نام پر ذبح کیا تو یقیناً اُنھوں نے غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا، اس لیے اس کا حرام ہونا واجب ٹھہرا۔ چنانچہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ فرماتے ہیں:
’’جب تم غیراللہ کے نام پر ذبح کرتے ہوئے یہود ونصاریٰ کی آواز سنو تو اُسے مت کھاؤ اور اگر آواز نہ سنوتو کھالو؛ کیوںکہ اللہ تعالیٰ نے ان کا ذبیحہ حلال فرمایا ہے اور وہ ان کی باتوں سے باخبر ہے۔‘‘(تفسیر کبیر، سورہ بقرہ، آیت: ۱۷۳)
امام رازی کی اس تفسیر وتوضیح سے واضح ہوگیا کہ کسی بھی جانور کو غیر اللہ کے نام کے ساتھ ذبح کیا جائے یا غیر اللہ کے تقرب وعبادت کے لیے ذبح کیا جائے، وہ بہر کیف حرام ہے۔ اسی طرح اہل کتاب کے استثنا کے ساتھ دیگر تمام کفارو مشرکین کا ذبیحہ حرام ہے۔یہ وہ مسائل ہیں جو آیت مذکورہ سے ثابت ہیں اور اس پر امت کا اتفاق ہے۔ اب ایک سوال یہ رہ جاتا ہے کہ ذبح کرنے والا مسلم ہو، وہ نہ تو غیر اللہ کے نام پر ذبح کرے اور نہ ہی غیر اللہ کے تقرب وعبادت کے لیے ذبح کرے، لیکن وہ ذبح کرتے وقت اللہ کا نام بھی نہ لے، خواہ اللہ کانام لینا ہی بھول جائے،خواہ جان بوجھ کروہ ایسا کرے،بہر دو صورت اس کے ذبیحے کا کیا حکم ہے؟
اس سلسلے میں علماے اسلام نے لکھا ہے کہ اگرجان بوجھ کرکسی نے ذبح کرتے وقت اللہ کا نام نہیں لیا تو جمہور کے نزدیک اس کا کھانا جائز نہیں ہوگا، کیوں کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَلاَ تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ( الانعام:۱۲۱)جس جانور پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا، اسے مت کھاؤ، یہ گناہ ہے۔اس کے برخلاف اگرکوئی مسلمان ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا بھول جائے تو ایسی صورت میں وہ ذبیحہ جائز ہے۔اس کی دلیل نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد ہے: الْمُسْلِمُ يَكْفِيهِ اسْمُهُ، فَإِنْ نَسِيَ أَنْ يُسَمِّيَ حِينَ يَذْبَحُ فَلْيَذْكُرِ اسْمَ اللهِ وَلْيَأْكُلْهُ .مسلمان کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کرے، البتہ اگرذبح کے وقت اللہ کا نام لینا بھول گیا تو بھی اللہ کا نام لے کر کھالے۔(السنن الکبریٰ للبیھقی، كِتَابُ الصَّيْدِ وَالذَّبَائِحِ،بَابُ مَنْ تَرَكَ التَّسْمِيَةَ وَهُوَ مِمَّنْ تَحِلُّ ذَبِيحَتُهُ/سنن الدارقطنی،الصَّيْدِ وَالذَّبَائِحِ وَالْأَطْعِمَةِ وَغَيْرِ ذَلِكَ)
جمہور کے خلاف امام شافعی، علامہ ابن رشد مالکی کا موقف اور امام احمد ابن حنبل کا قول غیر معروف یہ ہے کہ ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا مستحب ہے، یہاں تک کہ اگر کوئی مسلمان جان بوجھ کر بھی ذبح کے وقت اللہ کا نام نہ لے پھر بھی اس کا ذبیحہ جائز ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدعتی کا ذبیحہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علما نے بدعت کی دو قسمیں کی ہیں، ایک بدعت مکفرہ ، یعنی عقیدے کا ایسا انحراف جو کفر تک پہنچ گیا ہو اور دوسرا بدعت غیر مکفرہ، یعنی عقیدے کا ایسا انحراف جو کفر تک نہ پہنچا ہو۔ بدعت کے انہیں دونوں اقسام کے پیش نظر قسم اول کے حامل بدعتی کی علما نے تکفیر کی ہے، جب کہ ثانی الذکر کی تکفیر نہیں کی ہے ، بلکہ جماعت مسلمین میں ہی شامل رکھا ہے۔ عام طور پر بدعتی یا گمراہ کا اطلاق اسی معنی پر ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھیے تو چوں کہ بدعتی اپنے عمومی اطلاق میں مسلمان ہی ہوتا ہے اور مسلمان کا ذبیحہ جائز ہے، اس لیے بدعتی کا ذبیحہ بھی جائز ہی ٹھہرے گا۔ علامہ سید محمد مدنی دام ظلہ نے اپنا جواب اسی اصول کے تناظر میں دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
’’ذبیحہ جو حرام ہے وہ کسی کافر کا ذبیحہ ہے۔کسی کافر کا ذبیحہ[ہو] وہ حرام ہے۔ گمراہ بہت سے ہیں۔ گمراہوں کی لسٹ بناؤ [تو] بڑی لمبی چوڑی ہے۔ مگر ہر گمراہ کافر نہیں۔ہر گمراہ کافر نہیں، جب تک کہ اس کی گمراہی کفر تک نہ پہنچ جائے۔ کسی شخص کے بارے میں آپ کو یہ یقین ہو کہ اس نے کفر کیا ہے۔ اس کفر کی آپ کو اطلاع شرعی ہو۔ بالکل شک نہ ہو۔ تو ایسے کے ہاتھ کا ذبیحہ آپ نہیں استعمال کرسکتے۔ مگر جس کے بارے میں آپ کو خبر ہی نہ ہو۔ جب خبر ہی نہیں ہو تو اس کو آپ کافر نہیں کہہ سکتے اور جب کافر نہیں کہہ سکتے تو مسلمان کہنا پڑے گا۔ جو کافر نہیں ہے وہ مسلمان ہے۔ اور جب مسلمان ہے تو اس کا ذبیحہ بھی ٹھیک ہے۔ ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہابی کا ذبیحہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلمانوں کے بیچ رائج مسالک میں ایک مسلک وہابیت بھی ہے۔ اس گروہ سے متعلق افراد کا دعویٰ ہے کہ وہ بدعات سے بیزار اور اسلاف کے منہج پر ہیں، اسی لیے وہ خود کو سلفی بھی کہتے ہیں، جب کہ ان سے اختلاف رکھنے والے انہیں امت کے جمہور مسلک- تقلید وتصوف- کا باغی اور بہت سے فروعی عقائد ومسالک میں امت کےسواد اعظم سے منحرف سمجھتے ہیں، اسی لیے انہیں غیر مقلد بھی کہتے ہیں۔ لیکن نقد وجرح کی تمام تر سختیوں کے باوجود اہل تصوف وتقلید بھی مجموعی لحاظ سے انہیں مسلمان ہی شمار کرتے ہیں۔
علامہ سید محمد مدنی میاں دام ظلہ سے جو اصل سوال ہوا تھا وہ انہیں کے ذبیحے کے تعلق سے تھا۔ اصل جواب سے پہلے آپ نےمذکورہ بالا اصولی بات بتادی جس سے اصل سوال کا جواب از خود واضح ہوجاتا ہے۔اس کے بعد وابستگان وہابیت کے ذبیحے کے جائز ہونے کی وضاحت کرتے ہوئے ان کے بارے میں اپنی اس رائے کا اظہار فرمایا:
’’آپ نے [سوال میں]وہابی کا نام لے لیا۔ وہابی ایک گمراہ جماعت ہے۔ اس کی گمراہی میں کوئی شک نہیں۔‘‘
وہابیت کے تعلق سے تقریباًیہی رائے جمہور اہل اسلام کی ہے۔ چنانچہ وہابیت کے خلاف جو علما نبرد آزما رہے ہیں، ان کی تحقیقات وتنقیدات کی روشنی میں بھی علامہ مدنی میاں کا یہ جواب بالکل درست معلوم ہوتا ہے۔ میری محدود معلومات کے مطابق جن علما نے وہابی فکر کا رد کیا ہے وہ اس بات کے شاکی تو رہے ہیں کہ وہابی اپنے علاوہ دیگر مسلمانوں کوکافر کہتے ہیں، مگرلطف کی بات یہ ہے کہ رد کرنے والے علما وہابیت اور بانی وہابیت کی زیادہ سے زیادہ تفسیق وتضلیل کرتے ہیں،خود ان کی تکفیر نہیں کرتے ۔بانی وہابیت شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی(۱۷۹۲ء) کا رد کرنے والوں میں سرفہرست ان کے بھائی شیخ سلیمان ابن عبد الوہاب(۱۷۹۵ء) کا نام لیا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایاہے کہ اہل قبلہ کواختلاف کی بنیاد پر کافر کہنا اور ان کو مباح الدم سمجھنا خوارج کا طریقہ ہے جس پر وہابی گام زن ہیں۔ لیکن ان تمام تر شکایات کے باوجود شیخ سلیمان نے خود پلٹ کر وہابی علماوقائدین کی تکفیر نہیں کی ہے۔(دیکھیے شیخ سلیمان ابن عبد الوہاب کی کتاب : الصواعقُ الاِلٰھیۃ فِی الرَّدِّ عَلَی الوَھَابِیَّۃ)
وہابیت کا ہندوستانی ایڈیشن شاہ محمداسماعیل دہلوی(۱۸۳۱ء) کی کتاب تقویۃ الایمان سے سامنے آیا۔ان کے معاصر مولانا فضل حق خیرآبادی ( ۱۸۶۱ء) اور بعض دیگر علما نے شاہ اسماعیل کی بعض عبارتوں پر تکفیر کی لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ تکفیر شاہ اسماعیل کے کسی عقیدۂ کفر کی بنیاد پر نہیں تھی، بلکہ ان کی بعض تعبیرات کے سبب تھی جو مولانا فضل حق خیرآبادی کی نگاہ میں گستاخی رسالت پر مشتمل تھیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ان کے دوست اور رد وہابیہ میں ان کے شریک وسہیم مولانا شاہ فضل رسول بدایونی (۱۸۷۲ء) اپنی کتاب المعتقد المنتقد میں شاہ اسماعیل کی تکفیر نہیں کرتے، بلکہ صرف گمراہ، مبتدع اور ہویٰ پرست کہنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ اسی طرح وہابیت کے خلاف سب سے زیادہ سخت گیر سمجھے جانے والے عالم اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں بریلوی ( ۱۹۲۱ء) شاہ اسماعیل دہلوی پر مختلف طریقوں سے کفر کے لزوم کے تو قائل ہیں مگر ان کے نزدیک بھی التزام کفرمتحقق نہیں ہے،جس کی وجہ سے وہ کف لسان کرتے ہیں۔ فاضل بریلوی نے ’’رسالہ امور عشرین ‘‘کے اندر جس میں اہل سنت کے دس امتیازات لکھے ہیں، شیخ ابن عبدالوہاب نجدی اور شاہ اسماعیل دہلوی کو گمراہ لکھا ہے، کافر نہیں لکھا ہے۔آٹھویں نمبر پر یہ جملہ ہے:
’’ وہابیہ کا معِلّم اوّل ابن عبدالوہاب نجدی اور معلمِ ثانی اسمٰعیل دہلوی مصنف تقویۃ الایمان دونوں سخت گمراہ بددین تھے۔‘‘
(فتاویٰ رضویہ: ۲۹/رسالہ امورِ عشرین درامتیازِ عقائد سُنّیین)
ایک مقام پر ان کے خلاف طول طویل بحثیں کی ہیں اور دلائل وشواہد کے انبار لگادیے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود تکفیر کے معاملے میں کف لسان اور احتیاط کا موقف اختیار کیا ہے۔ تکفیر کے حوالے سے بہت سے اقوال نقل کرنے کےبعد آخر میں لکھتے ہیں:
’’ ہمارے نزدیک مقام احتیاط میں اِکفارسے کف لسان ماخوذ مختار ومرضی ومناسب۔ واللہُ سبحٰنَہُ وَتَعَالٰی اَعلَم‘‘
(فتاویٰ رضویہ: ۱۵/۲۳۶)
ان حوالوں سےوہابیت کے تعلق سے فاضل بریلوی کے موقف کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ لہٰذا اگر ان کے خلاف ان کی کوئی ایسی عبارت آتی ہے جس میں تکفیر کا پہلو نکلتاہو تو تطبیق کی صورت یہی ہوگی کہ وہ کفر فقہی لزومی کے تو قائل ہیں مگرکفر کلامی التزامی کے قائل نہیں ہیں اور یہی ان کا اصل مذہب ہے ، کیوں کہ وہ جگہ جگہ اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ تکفیر کے باب میں میرا مسلک متکلمین محققین کا ہےاور متکلمین محققین کے نزدیک کفر لزومی حقیقت میں کفر ہی نہیں ہوتا، کیوں کہ وہ اس بات کے قائل ہیں کہ لازم المذھب لیس بمذھب یعنی جو نظریہ کسی کی واضح صراحت سے ثابت نہ ہو، بلکہ اس کے کسی دوسرے قول سے لازم آئے، اسے اس کانظریہ نہیں قرار دیا جاسکتا۔
جدید دور میں علماے عرب کی بڑی تعداد وہابیت کارد کرتی ہے۔ان رد کرنے والوں میں ڈاکٹرمحمدسعید رمضان بوطی(۲۰۱۳ء) اور شیخ یوسف ہاشم رفاعی(۲۰۱۸ء) کے نام نمایاں ہیں۔لیکن یہ حضرات بھی وہابیہ کی تکفیر نہیں کرتے بلکہ شیخ رفاعی کی ایک کتاب نَصِیحَۃٌ لِاِخوَانِنا عُلَماءِنَجد عرب دنیامیں بہت مشہور ہوئی۔اس پر ڈاکٹر سعید رمضان بوطی کا مقدمہ ہے۔ان دونوں بزرگوں نے نجدی علماکی تکفیر کرنے کے بجائے انہیں مکالمے کی میز پر بلایا ہے اوروہابیت اور صوفیت کی جنگ ختم کرنے کی دعوت دی ہے اور دونوں نے علماے نجد کو ایک دینی بھائی کے طورپرمخاطب کیا ہے۔
اس پوری گفتگو سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہابیہ پر خواہ جتنی جہت سے سخت تنقید ات کی گئی ہوں، لیکن اس کےباوجود اہل سنت کے بڑے سخت گیر اور ناقد علما نے بھی انہیں مسلمان ہی سمجھا ہے۔اس لیے ان کے ذبیحہ کے تعلق سے علامہ مدنی میاں نے جو کچھ کہا ہے،نہ صرف یہ کہ ایک درست موقف کا اظہار ہے، بلکہ یہ موقف ان بے شمار علما کے مطابق ہے جو ماضی میں وہابیت کے خلاف نبرد آزما رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیوبندی کا ذبیحہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ سید محمد مدنی میاں سے اصل سوال وہابی کے ذبیحے سے متعلق کیا گیا تھا، لیکن جس طرح انہوں نے اصولی طورسے اہل بدعت کے ذبیحے کا حکم بیان کردیا، اسی طرح ضمنی طور سے وابستگان دیوبندیت کے ذبیحے کا حکم بھی بیان فرمادیا۔ فرماتے ہیں:
’’ان وہابیوں[دیوبندیوں] کے اندر کون درجۂ کفر تک پہنچا ، ہمارے جلیل القدر علما جب انہوں نے پہچان کرائی، تو صرف پانچ ہیں۔درجۂ کفر تک پہنچنے والے پانچ ہیں۔ اور ان کا کفر ان کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے۔ ان کی کتابیں مشہور ہیں۔ وہ پانچ ہیں۔ ان کی پیروی کرنے والے جو ان کے کفر کو نہیں جانتے، وہ بھی کافر نہیں۔ کافر ہونے کے لیے ان کا کفر جاننا ضروری ہے۔ یہ پانچ تو ہیں وہ جنہوں نے کفر کیا۔ اور میں سمجھتا ہوں پانچ ہزار پانچ لاکھ ہوں گے وہ جو ان کے پیچھے چلتے ہیں۔ مگر وہ جانتے ہی نہیں کہ انہوں نے کیا کفر کیا۔ جب جانتے ہی نہیں تو اس کا کچھ نہیں۔ وہ گمراہ رہیں گے۔ ان سے بچنا ضروری ہے۔ ان سے ، گمراہ سے دور رہنا اچھا ہے۔ ضروری ہے، لازمی ہے۔وہ سب بات صحیح ہے۔مگر شرعی مسئلہ اگرآپ پوچھتے ہیںکہ ان کے ہاتھ کا ذبیحہ کیسا ہے؟ تو اس کے لیے تو کفر کا قطعی علم ہونا چاہیے۔ اور جو کسی کو ہوتا نہیں ہے۔ نہیں ہوتا۔ بہت سارے مولوی حضرات بھی ہیں، ان کو بھی نہیں ہوتا۔ وہ نہیں جانتے۔ کفر کو نہیں جانتے۔ اب سوچیے اتنی بڑی دنیا میں صرف پانچ کو کافر کہنا اور باقی کو گمراہ کہہ کے چھوڑ دینا، اس میں بھی تو کوئی حکمت ہے۔ اس میں تو کوئی مصلحت ہے۔ آپ نے جو سوال کیا ہے، ذبیحے والا معاملہ، آپ یقین جانیے اور امید رکھیے کہ جتنے ذبیحہ کرنے والے ہیں، وہ [عام قصاب ہیں جو]درجۂ کفر تک نہیں پہنچے ہیں۔ لہٰذا ان میں کرید کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔
اس پوری عبارت میں علامہ مدنی میاں نے اگرچہ دیوبندی کا لفظ استعمال نہیں کیا ہے، بلکہ وہابی کا لفظ استعمال کیاہے- جیسا کہ عام طور پر بریلوی حلقے میں دیوبندیوںکو بھی وہابی کہا جاتا ہے-مگر درست بات یہ ہے کہ یہ بیان دیوبندیوں سے متعلق ہے،کیوں کہ اس میں جن علما کی تکفیر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، یہ علماے دیوبند ہیں، جن کی تکفیراعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی نے حسام الحرمین میں کی ہے۔
یہاں اولاً یہ بات سمجھنے کی ہے کہ علماے دیوبند کی تکفیر فاضل بریلوی اور بعض دیگر علما نے کی، لیکن اس عہد میں اکابر علماےاسلام کی ایسی بڑی تعداد ہے جو اس تکفیر سے متفق نہیں ہے۔ لہٰذااس تکفیر کا وہ درجہ نہیں ہوسکتا جو کسی اجماعی تکفیر کا ہوتا ہے۔ آج بھی عرب اوردیگر بلادشرق وغرب میں انہیں عام طور سےحنفی ماتریدی علما کے طور پر ہی جانا جاتا ہے۔جہاں تک تصوف کی بات ہے تو وہ اپنے اعتبار سے تصوف کی اصلاح کے ساتھ اس کے قائل ہیں، جب کہ اپنے مخالفین کی نظر میں وہ تصوف کی بعض باتوں کے قائل ہیں، جب کہ بعض کے منکر ہیں۔لیکن بہر کیف، ان کی تکفیر نہ تو اجماعی ہے اور نہ ہی جماعتی اور گروہی۔ عالم اسلام قادیانیوں کی طرح نام زد طور پر ان کی جماعتی تکفیر نہیں کرتا۔
دوسری بات یہ ہے کہ وہ حضرات علما جن کی فاضل بریلوی نے تکفیر کی، وہ دنیا سے رخصت ہوگئے، اب ان کے ذبیحے کی حلت وحرمت کا مسئلہ بھی نہیں رہا، بلکہ وہ رہتے تو بھی عملاً اس مسئلے کا سامنا شاید ہی کسی کو ہوتا۔
اب رہا یہ سوال کہ ان کے متبعین جو لاکھوںکی تعداد میں برصغیر اور باہر کی دنیا میں موجود ہیں، ان کے ذبیحے کا کیا حکم ہے؟تو ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب اس وقت معلوم ہوگا جب یہ معلوم ہو کہ ان پر حکم کفر ہے یا نہیں ہے؟ اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ علماے دیوبند کی تکفیر کرنے والے بریلوی علما کے یہاں بھی ان کی تکفیر افرادی تکفیر ہے، جماعتی تکفیر نہیں ہے۔ یعنی اس وقت کوئی بھی مستند بریلوی عالم پوری دیوبندی جماعت کی تکفیر نہیںکرتا، بلکہ چند افراد کی نام زد طور پر تکفیر کرتا ہے۔علامہ سید محمد مدنی میاں کا مذکورہ جواب اس تناظر میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت علامہ کا شمار اس وقت بریلوی دنیا میں نمبر ایک عالم کے طور پر ہوتا ہے، یا کم از کم وہ صف اول کے منتخب ترین علما میں تسلیم کیے ہی جاتے ہیں۔ ہماری دانست میںبریلوی حلقے کے دیگر اکابر کا بھی تقریباً وہی موقف ہے جو حضرت والا کا ہے، الا ماشاء اللہ۔
بریلوی علما میں جو حضرات اس فکر سے مختلف ہیں،وہ بھی کھل کر عام دیوبندیوں کی تکفیر نہیں کرتے، بلکہ وہ ایک مبہم اور عمومی بات کہتے ہیں کہ جو بھی علماے دیوبند-جن کی فاضل بریلوی نے تکفیر کی ہے-کے کفر پر شرعی اطلاع کے بعد بھی انہیں مسلمان سمجھتا ہے، وہ کافر ہے۔ اس مبہم بیانیے کے بعد بہت سے بریلوی علما وہ ہیں جو متعین طور پر کسی بھی دیوبندی عالم یا جاہل کی تکفیر نہیں کرتے، سواے ان کے جن کی تکفیر حسام الحرمین میں ہوچکی ہے۔ صف اول کے ممتاز بریلوی فقیہ ومناظر علامہ مفتی محمدمطیع الرحمٰن مضطر رضوی نے میرے اور میرے احباب کے سامنے اپنا موقف بھی یہی بیان کیا اور کہا کہ جن چار علماے دیوبند کی حسام الحرمین میں تکفیر کی گئی ہے، ان کے علاوہ میں کسی پانچویں دیوبندی کی تکفیر نہیں کرتا، یہاں تک کہ میں مولانا انور شاہ کشمیری اور قاری محمد طیب کی بھی تکفیر نہیں کرتا۔ بعض جو ان سے سخت ہیں وہ دیوبندی علما کی تکفیر تو کرتے ہیں، مگر عوام کی نہیں کرتے۔ البتہ اس جماعت میں ایک شرذمہ قلیلہ ایسا ہوسکتاہے جو عوام وخواص سب کی تکفیر کی جرات کرتا ہو ۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ چوں کہ عوام وخواص کم از کم ان علما کو اپنا پیشوا تو سمجھتے ہی ہیں جن کے کفر پر اعلیٰ حضرت نے فتویٰ دیا ہے اور ہمارے علما نے بار بار اسے واضح کردیا ہے، لہٰذا وہ سب کافر۔یہ حضرات بے چارے عوام پر اسی طرح کفر کا مقدمہ چلاتے ہیں جس طرح کسی شاعر نے اپنےاس شعر میں پروانوں کے قتل کا الزام شہد کی مکھیوں پر ڈال دیا ہے:
مگس کو باغ میں جانے نہ دینا
کہ ناحق خون پروانوں کا ہوگا
بہر کیف! اگر حسام الحرمین کی تکفیر کو درست مانا جائے پھر بھی دیوبندیوں اور ان کے ذبیحے کے بارے میں وہی حکم ہوگا جو علامہ سید مدنی میاں نےیہاں بیان فرمایا ہے۔ کتاب وسنت اور قیاس وبصیرت سے انہیں کے موقف کی درستگی ثابت ہوتی ہے۔ اس تعلق سےمزید تفصیل وتوضیح شبہہ نمبر چار اور پانچ کے ذیل میں ملاحظہ کیجیے۔
-------جاری ہےاہل بدعت کے ذبیحے کا حکم؟
حضرت علامہ مدنی میاں دام ظلہ کے بیان کی توضیح اوربعض حضرات علماکے شبہات کا ازالہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذیشان احمد مصباح
استاذ: جامعہ عارفیہ، سید سراواں، کوشامبی، یوپ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلی قسط-اصل مسئلہ کی تفہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حلال جانور اگر اللہ کے نام کے ساتھ ذبح کیا جائےتو اس کا کھانا حلال ہے، اِلا یہ کہ شریعت نے ذبح کے بعض شرائط بیان کیے ہیں، جن کی پاس داری ضروری ہے۔ ذبح ہونے والے جانور کے سلسلے میں فقہا نےمتعدد شرائط ذکر کیے ہیں جن میں یہ دوباتیں خاصی اہم ہیں
۱-ذبح کرتے وقت وہ جانور زندہ ہو۔ ۲-ذبح کرنے کے سبب ہی اس کی روح نکل
اسی طرح ذبح کرنے والے کے سلسلے میں بھی فقہا نے متعدد شرائط ذکر کیے ہیں، جن میں یہ دو باتیں بہت اہمیت رکھتی ہی
۱-ذبح کرنے والا عاقل ہو۔ ۲-ذبح کرنے والا مسلمان یا کتابی
اس آخری پوائنٹ کی وضاحت میں علما نے لکھا ہے کہ بت پرست اور مجوسی کا ذبیحہ جائز نہیں ہے اور یہ بات اہل اسلام کے یہاں متفق علیہ ہے۔ اہل علم نے اس کی توجیہ یہ فرمائی ہے کہ چوں کہ یہ حضرات خلوص کے ساتھ اللہ کا نام نہیں لےسکتے۔ کیوںکہ بت پرست یا تو ذبح کرتے ہوئے اپنے بتوں کا نام لیتے ہیں یا انہیں اپنے بتوں کے آستانوں پر ذبح کرتے ہیں اور قرآن نے ان دونوں ذبیحوں کو حرام کردیا ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے
وَ مَا اُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللّٰهِ ۔’’اللہ تعالیٰ نے تم پرغیراللہ کے نام کاذبیحہ حرام کردیا ہے۔‘‘ ( البقرۃ: ۱۷
وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِاورجو بتوں کے آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو، اسے بھی حرام کردیا گیا ہے۔(المائدۃ:
اور جہاں تک مجوسیوں کی بات ہے تو وہ ذبح کرتے وقت کسی کا نام نہیں لیتے اور ان کے تعلق سے پیغمبر اسلام ﷺ نے یہ خاص تاکید فرمائی ہے کہ مجوس کے ساتھ نکاح کرنے اور ان کا ذبیحہ کھانے کے علاوہ ان کے ساتھ وہی سلوک کرو جو اہل کتاب کے ساتھ کرتے ہو۔سُنُّوا بِهِمْ سُنَّةَ أَهْل الْكِتَابِ غَيْرَ نَاكِحِي نِسَائِهِمْ وَلاَ آكِلِي ذَبَائِحِهِمْ.(موطا، بیہقی، ابن ابی شیبہ وغیرہ بسند ضعیف)چوں کہ مرتد بھی غیر مسلم ہوتا ہے، اس لیے علما نے اس کا ذبیحہ بھی بت پرست کے ذبیحے سے ملحق کردیا ہ
گذشتہ دنوں کچھوچھہ مقدسہ کے نامور اور اہم ترین شخصیت علامہ سید محمد مدنی میاں اشرفی مدظلہ العالی کے ایک ویڈیو بیان کے بعداہل بدعت کے ذبیحے کے جواز وعدم جواز کےسلسلے میں ایک بحث نکل پڑی، جس میں بعض بحث کرنے والےتحقیق و شرافت کے دامن سے دست بردار ہوتے نظر آئے، جو افسوس ناک ہے۔ علامہ مدنی میاں صاحب حفظہ اللہ سے در اصل موجودہ عہد کے وہابی حضرات کے ذبیحے سے متعلق سوال کیا گیا تھا،جسے آپ نے جائز کہا تھا،اب یہاں ایک دوسری بحث بھی نکل پڑی کہ موجودہ وہابی اور دیوبندی حضرات کس زمرے میں آتے ہیں؟، اہل بدعت میں آتے ہیں،یا اہل کفروارتداد میں آتے ہیں؟یہی سوالات اس تحریر کا باعث ہیں۔ واللہ ھوالھادی وھوالموفق للسدا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وَ مَا اُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللّٰهِ کی تفسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس بحث کا غالب حصہ آیت کریمہ وَ مَا اُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللّٰهِ( بقرہ:۱۷۳)سے متعلق ہے۔ اس لیے اس کی قدرے تفسیر وتوضیح ضروری ہے۔اس کی تفسیر میں امام فخر الدین رازی (۱۲۱۰ء) لکھتے ہیں
’’اِھلال رفع صوت کو کہتے ہیں۔ جو شخص بھی اپنی آواز بلند کرے اسے مُہِلّ کہا جائےگا۔ ابن احمر نے کہ
یُھِلُّ بِالْفَدفَدِ رُکبَانُھَ
کَمَا یُھِلُّ الرَّاکِبُ الْمُعْتَمِ
میدان جنگ میں مجاہدین ایسے ہی اپنی آواز بلند کرتے ہیںجیسے کوئی سوار حاجی بلند آواز سے تکبیر کہتا جارہا ہ
یہ اِھلال کا لغوی معنی ہے۔ پھر احرام پوش کو بھی مُہِلّ کہا جاتا ہے؛ کیوںکہ احرام پوشی کے وقت وہ بلند آواز سے صدائے تکبیر بلند کرتا ہے۔ یہیاِھلال کا مفہوم ہے۔ جب کوئی شخص حج یا عمرہ کا احرام باندھ لےتو کہا جاتا ہے:أَھَلَّ فُلَانٌ بِحَجَّۃٍ أوْعُمْرَۃٍ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ احرام پوشی کے وقت حاجی زور زور سے لبیک کی صدائیں بلند کرتا ہے۔ اسی طرح ذبح کرنے والے کو بھی مُہِلّ کہا جاتا ہے، کیوں کہ عرب ذبح کرتے وقت بتوں کو اپنی بات سناتے تھے اور بلند آواز سے ان کانام لیتے تھے۔ اسی سے اِسْتَھَلَّ الصَّبِیُّ ماخوذ ہے۔ یہ اس وقت بولا جاتا ہے جب بچے کی آواز بلند ہوتی ہے۔ اب ارشاد باری: وَ مَا اُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللّٰهِ کا مطلب یہ ہواکہ جو بتوں کے لیے ذبح کیا گیا۔ مجاہد، ضحاک اور قتادہ کا یہی قول ہے، جب کہ ربیع بن انس اور ابن زید کہتے ہیں اس کے معنی ہیں وہ جانور جس کو ذبح کرتے ہوئےغیراللہ کا نام لیا گیا ہو۔ یہ قول زیادہ مناسب ہے؛ کیوںکہ یہ مفہوم لفظ سے زیادہ قریب ہ
علما کہتے ہیں کہ اگرمسلمان کسی غیراللہ کے تقرب کی نیت سے جانور ذبح کرتا ہے تو وہ مرتد ہوجائےگا اور اس کا ذبیحہ مرتد کے ذبیحے کے حکم میں ہوگا اور یہ حکم اہل کتاب کے ذبیحےکے لیے نہیں ہے؛ کیوں کہ اہل کتاب کا ذبیحہ حلال ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَ طَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حِلٌّ لَّكُمْ۵(مائدہ)اہل کتاب کا ذبیحہ تمہارے لیے مباح ہ
مزید فرماتے ہی
بعض علما اِس طرف گئے ہیں کہ اس سے بت پرستوں کا ذبیحہ مراد ہےجو اپنے بتوں کے لیے جانور ذبح کرتے ہیں، جیساکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ اورجو بتوں کے آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو، اسے بھی حرام کردیا گیا ہے۔ (المائدۃ: ۳) یہ حضرات عیسائیوں کے ذبیحے کو حلال کہتے ہیں، خواہ وہ سیدنا مسیح علیہ السلام کے نام پر کیوں نہ کررہا ہو۔ عطا، مکحول، حسن بصری، شعبی اورسعید بن مسیب کا یہی مذہب ہے،جب کہ امام مالک،امام شافعی، امام ابوحنیفہ اور اُن کے اصحاب اُسے حرام کہتے ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جب اُنھوں نے جناب مسیح کے نام پر ذبح کیا تو یقیناً اُنھوں نے غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا، اس لیے اس کا حرام ہونا واجب ٹھہرا۔ چنانچہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ فرماتے ہیں
’’جب تم غیراللہ کے نام پر ذبح کرتے ہوئے یہود ونصاریٰ کی آواز سنو تو اُسے مت کھاؤ اور اگر آواز نہ سنوتو کھالو؛ کیوںکہ اللہ تعالیٰ نے ان کا ذبیحہ حلال فرمایا ہے اور وہ ان کی باتوں سے باخبر ہے۔‘‘(تفسیر کبیر، سورہ بقرہ، آیت: ۱۷
امام رازی کی اس تفسیر وتوضیح سے واضح ہوگیا کہ کسی بھی جانور کو غیر اللہ کے نام کے ساتھ ذبح کیا جائے یا غیر اللہ کے تقرب وعبادت کے لیے ذبح کیا جائے، وہ بہر کیف حرام ہے۔ اسی طرح اہل کتاب کے استثنا کے ساتھ دیگر تمام کفارو مشرکین کا ذبیحہ حرام ہے۔یہ وہ مسائل ہیں جو آیت مذکورہ سے ثابت ہیں اور اس پر امت کا اتفاق ہے۔ اب ایک سوال یہ رہ جاتا ہے کہ ذبح کرنے والا مسلم ہو، وہ نہ تو غیر اللہ کے نام پر ذبح کرے اور نہ ہی غیر اللہ کے تقرب وعبادت کے لیے ذبح کرے، لیکن وہ ذبح کرتے وقت اللہ کا نام بھی نہ لے، خواہ اللہ کانام لینا ہی بھول جائے،خواہ جان بوجھ کروہ ایسا کرے،بہر دو صورت اس کے ذبیحے کا کیا حکم ہ
اس سلسلے میں علماے اسلام نے لکھا ہے کہ اگرجان بوجھ کرکسی نے ذبح کرتے وقت اللہ کا نام نہیں لیا تو جمہور کے نزدیک اس کا کھانا جائز نہیں ہوگا، کیوں کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَلاَ تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ( الانعام:۱۲۱)جس جانور پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا، اسے مت کھاؤ، یہ گناہ ہے۔اس کے برخلاف اگرکوئی مسلمان ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا بھول جائے تو ایسی صورت میں وہ ذبیحہ جائز ہے۔اس کی دلیل نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد ہے: الْمُسْلِمُ يَكْفِيهِ اسْمُهُ، فَإِنْ نَسِيَ أَنْ يُسَمِّيَ حِينَ يَذْبَحُ فَلْيَذْكُرِ اسْمَ اللهِ وَلْيَأْكُلْهُ .مسلمان کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کرے، البتہ اگرذبح کے وقت اللہ کا نام لینا بھول گیا تو بھی اللہ کا نام لے کر کھالے۔(السنن الکبریٰ للبیھقی، كِتَابُ الصَّيْدِ وَالذَّبَائِحِ،بَابُ مَنْ تَرَكَ التَّسْمِيَةَ وَهُوَ مِمَّنْ تَحِلُّ ذَبِيحَتُهُ/سنن الدارقطنی،الصَّيْدِ وَالذَّبَائِحِ وَالْأَطْعِمَةِ وَغَيْرِ ذَلِكَ
جمہور کے خلاف امام شافعی، علامہ ابن رشد مالکی کا موقف اور امام احمد ابن حنبل کا قول غیر معروف یہ ہے کہ ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا مستحب ہے، یہاں تک کہ اگر کوئی مسلمان جان بوجھ کر بھی ذبح کے وقت اللہ کا نام نہ لے پھر بھی اس کا ذبیحہ جائز ہوگ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدعتی کا ذبیح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علما نے بدعت کی دو قسمیں کی ہیں، ایک بدعت مکفرہ ، یعنی عقیدے کا ایسا انحراف جو کفر تک پہنچ گیا ہو اور دوسرا بدعت غیر مکفرہ، یعنی عقیدے کا ایسا انحراف جو کفر تک نہ پہنچا ہو۔ بدعت کے انہیں دونوں اقسام کے پیش نظر قسم اول کے حامل بدعتی کی علما نے تکفیر کی ہے، جب کہ ثانی الذکر کی تکفیر نہیں کی ہے ، بلکہ جماعت مسلمین میں ہی شامل رکھا ہے۔ عام طور پر بدعتی یا گمراہ کا اطلاق اسی معنی پر ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھیے تو چوں کہ بدعتی اپنے عمومی اطلاق میں مسلمان ہی ہوتا ہے اور مسلمان کا ذبیحہ جائز ہے، اس لیے بدعتی کا ذبیحہ بھی جائز ہی ٹھہرے گا۔ علامہ سید محمد مدنی دام ظلہ نے اپنا جواب اسی اصول کے تناظر میں دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں
’’ذبیحہ جو حرام ہے وہ کسی کافر کا ذبیحہ ہے۔کسی کافر کا ذبیحہ[ہو] وہ حرام ہے۔ گمراہ بہت سے ہیں۔ گمراہوں کی لسٹ بناؤ [تو] بڑی لمبی چوڑی ہے۔ مگر ہر گمراہ کافر نہیں۔ہر گمراہ کافر نہیں، جب تک کہ اس کی گمراہی کفر تک نہ پہنچ جائے۔ کسی شخص کے بارے میں آپ کو یہ یقین ہو کہ اس نے کفر کیا ہے۔ اس کفر کی آپ کو اطلاع شرعی ہو۔ بالکل شک نہ ہو۔ تو ایسے کے ہاتھ کا ذبیحہ آپ نہیں استعمال کرسکتے۔ مگر جس کے بارے میں آپ کو خبر ہی نہ ہو۔ جب خبر ہی نہیں ہو تو اس کو آپ کافر نہیں کہہ سکتے اور جب کافر نہیں کہہ سکتے تو مسلمان کہنا پڑے گا۔ جو کافر نہیں ہے وہ مسلمان ہے۔ اور جب مسلمان ہے تو اس کا ذبیحہ بھی ٹھیک ہے۔ ‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہابی کا ذبیح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلمانوں کے بیچ رائج مسالک میں ایک مسلک وہابیت بھی ہے۔ اس گروہ سے متعلق افراد کا دعویٰ ہے کہ وہ بدعات سے بیزار اور اسلاف کے منہج پر ہیں، اسی لیے وہ خود کو سلفی بھی کہتے ہیں، جب کہ ان سے اختلاف رکھنے والے انہیں امت کے جمہور مسلک- تقلید وتصوف- کا باغی اور بہت سے فروعی عقائد ومسالک میں امت کےسواد اعظم سے منحرف سمجھتے ہیں، اسی لیے انہیں غیر مقلد بھی کہتے ہیں۔ لیکن نقد وجرح کی تمام تر سختیوں کے باوجود اہل تصوف وتقلید بھی مجموعی لحاظ سے انہیں مسلمان ہی شمار کرتے ہیں
علامہ سید محمد مدنی میاں دام ظلہ سے جو اصل سوال ہوا تھا وہ انہیں کے ذبیحے کے تعلق سے تھا۔ اصل جواب سے پہلے آپ نےمذکورہ بالا اصولی بات بتادی جس سے اصل سوال کا جواب از خود واضح ہوجاتا ہے۔اس کے بعد وابستگان وہابیت کے ذبیحے کے جائز ہونے کی وضاحت کرتے ہوئے ان کے بارے میں اپنی اس رائے کا اظہار فرمای
’’آپ نے [سوال میں]وہابی کا نام لے لیا۔ وہابی ایک گمراہ جماعت ہے۔ اس کی گمراہی میں کوئی شک نہیں۔
وہابیت کے تعلق سے تقریباًیہی رائے جمہور اہل اسلام کی ہے۔ چنانچہ وہابیت کے خلاف جو علما نبرد آزما رہے ہیں، ان کی تحقیقات وتنقیدات کی روشنی میں بھی علامہ مدنی میاں کا یہ جواب بالکل درست معلوم ہوتا ہے۔ میری محدود معلومات کے مطابق جن علما نے وہابی فکر کا رد کیا ہے وہ اس بات کے شاکی تو رہے ہیں کہ وہابی اپنے علاوہ دیگر مسلمانوں کوکافر کہتے ہیں، مگرلطف کی بات یہ ہے کہ رد کرنے والے علما وہابیت اور بانی وہابیت کی زیادہ سے زیادہ تفسیق وتضلیل کرتے ہیں،خود ان کی تکفیر نہیں کرتے ۔بانی وہابیت شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی(۱۷۹۲ء) کا رد کرنے والوں میں سرفہرست ان کے بھائی شیخ سلیمان ابن عبد الوہاب(۱۷۹۵ء) کا نام لیا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایاہے کہ اہل قبلہ کواختلاف کی بنیاد پر کافر کہنا اور ان کو مباح الدم سمجھنا خوارج کا طریقہ ہے جس پر وہابی گام زن ہیں۔ لیکن ان تمام تر شکایات کے باوجود شیخ سلیمان نے خود پلٹ کر وہابی علماوقائدین کی تکفیر نہیں کی ہے۔(دیکھیے شیخ سلیمان ابن عبد الوہاب کی کتاب : الصواعقُ الاِلٰھیۃ فِی الرَّدِّ عَلَی الوَھَابِیَّ
وہابیت کا ہندوستانی ایڈیشن شاہ محمداسماعیل دہلوی(۱۸۳۱ء) کی کتاب تقویۃ الایمان سے سامنے آیا۔ان کے معاصر مولانا فضل حق خیرآبادی ( ۱۸۶۱ء) اور بعض دیگر علما نے شاہ اسماعیل کی بعض عبارتوں پر تکفیر کی لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ تکفیر شاہ اسماعیل کے کسی عقیدۂ کفر کی بنیاد پر نہیں تھی، بلکہ ان کی بعض تعبیرات کے سبب تھی جو مولانا فضل حق خیرآبادی کی نگاہ میں گستاخی رسالت پر مشتمل تھیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ان کے دوست اور رد وہابیہ میں ان کے شریک وسہیم مولانا شاہ فضل رسول بدایونی (۱۸۷۲ء) اپنی کتاب المعتقد المنتقد میں شاہ اسماعیل کی تکفیر نہیں کرتے، بلکہ صرف گمراہ، مبتدع اور ہویٰ پرست کہنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ اسی طرح وہابیت کے خلاف سب سے زیادہ سخت گیر سمجھے جانے والے عالم اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں بریلوی ( ۱۹۲۱ء) شاہ اسماعیل دہلوی پر مختلف طریقوں سے کفر کے لزوم کے تو قائل ہیں مگر ان کے نزدیک بھی التزام کفرمتحقق نہیں ہے،جس کی وجہ سے وہ کف لسان کرتے ہیں۔ فاضل بریلوی نے ’’رسالہ امور عشرین ‘‘کے اندر جس میں اہل سنت کے دس امتیازات لکھے ہیں، شیخ ابن عبدالوہاب نجدی اور شاہ اسماعیل دہلوی کو گمراہ لکھا ہے، کافر نہیں لکھا ہے۔آٹھویں نمبر پر یہ جملہ ہ
’’ وہابیہ کا معِلّم اوّل ابن عبدالوہاب نجدی اور معلمِ ثانی اسمٰعیل دہلوی مصنف تقویۃ الایمان دونوں سخت گمراہ بددین تھے۔‘
(فتاویٰ رضویہ: ۲۹/رسالہ امورِ عشرین درامتیازِ عقائد سُنّیین
ایک مقام پر ان کے خلاف طول طویل بحثیں کی ہیں اور دلائل وشواہد کے انبار لگادیے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود تکفیر کے معاملے میں کف لسان اور احتیاط کا موقف اختیار کیا ہے۔ تکفیر کے حوالے سے بہت سے اقوال نقل کرنے کےبعد آخر میں لکھتے ہی
’’ ہمارے نزدیک مقام احتیاط میں اِکفارسے کف لسان ماخوذ مختار ومرضی ومناسب۔ واللہُ سبحٰنَہُ وَتَعَالٰی اَعلَم‘
(فتاویٰ رضویہ: ۱۵/۲۳۶
ان حوالوں سےوہابیت کے تعلق سے فاضل بریلوی کے موقف کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ لہٰذا اگر ان کے خلاف ان کی کوئی ایسی عبارت آتی ہے جس میں تکفیر کا پہلو نکلتاہو تو تطبیق کی صورت یہی ہوگی کہ وہ کفر فقہی لزومی کے تو قائل ہیں مگرکفر کلامی التزامی کے قائل نہیں ہیں اور یہی ان کا اصل مذہب ہے ، کیوں کہ وہ جگہ جگہ اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ تکفیر کے باب میں میرا مسلک متکلمین محققین کا ہےاور متکلمین محققین کے نزدیک کفر لزومی حقیقت میں کفر ہی نہیں ہوتا، کیوں کہ وہ اس بات کے قائل ہیں کہ لازم المذھب لیس بمذھب یعنی جو نظریہ کسی کی واضح صراحت سے ثابت نہ ہو، بلکہ اس کے کسی دوسرے قول سے لازم آئے، اسے اس کانظریہ نہیں قرار دیا جاسکت
جدید دور میں علماے عرب کی بڑی تعداد وہابیت کارد کرتی ہے۔ان رد کرنے والوں میں ڈاکٹرمحمدسعید رمضان بوطی(۲۰۱۳ء) اور شیخ یوسف ہاشم رفاعی(۲۰۱۸ء) کے نام نمایاں ہیں۔لیکن یہ حضرات بھی وہابیہ کی تکفیر نہیں کرتے بلکہ شیخ رفاعی کی ایک کتاب نَصِیحَۃٌ لِاِخوَانِنا عُلَماءِنَجد عرب دنیامیں بہت مشہور ہوئی۔اس پر ڈاکٹر سعید رمضان بوطی کا مقدمہ ہے۔ان دونوں بزرگوں نے نجدی علماکی تکفیر کرنے کے بجائے انہیں مکالمے کی میز پر بلایا ہے اوروہابیت اور صوفیت کی جنگ ختم کرنے کی دعوت دی ہے اور دونوں نے علماے نجد کو ایک دینی بھائی کے طورپرمخاطب کیا ہ
اس پوری گفتگو سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہابیہ پر خواہ جتنی جہت سے سخت تنقید ات کی گئی ہوں، لیکن اس کےباوجود اہل سنت کے بڑے سخت گیر اور ناقد علما نے بھی انہیں مسلمان ہی سمجھا ہے۔اس لیے ان کے ذبیحہ کے تعلق سے علامہ مدنی میاں نے جو کچھ کہا ہے،نہ صرف یہ کہ ایک درست موقف کا اظہار ہے، بلکہ یہ موقف ان بے شمار علما کے مطابق ہے جو ماضی میں وہابیت کے خلاف نبرد آزما رہے ہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیوبندی کا ذبیح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ سید محمد مدنی میاں سے اصل سوال وہابی کے ذبیحے سے متعلق کیا گیا تھا، لیکن جس طرح انہوں نے اصولی طورسے اہل بدعت کے ذبیحے کا حکم بیان کردیا، اسی طرح ضمنی طور سے وابستگان دیوبندیت کے ذبیحے کا حکم بھی بیان فرمادیا۔ فرماتے ہیں
’’ان وہابیوں[دیوبندیوں] کے اندر کون درجۂ کفر تک پہنچا ، ہمارے جلیل القدر علما جب انہوں نے پہچان کرائی، تو صرف پانچ ہیں۔درجۂ کفر تک پہنچنے والے پانچ ہیں۔ اور ان کا کفر ان کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے۔ ان کی کتابیں مشہور ہیں۔ وہ پانچ ہیں۔ ان کی پیروی کرنے والے جو ان کے کفر کو نہیں جانتے، وہ بھی کافر نہیں۔ کافر ہونے کے لیے ان کا کفر جاننا ضروری ہے۔ یہ پانچ تو ہیں وہ جنہوں نے کفر کیا۔ اور میں سمجھتا ہوں پانچ ہزار پانچ لاکھ ہوں گے وہ جو ان کے پیچھے چلتے ہیں۔ مگر وہ جانتے ہی نہیں کہ انہوں نے کیا کفر کیا۔ جب جانتے ہی نہیں تو اس کا کچھ نہیں۔ وہ گمراہ رہیں گے۔ ان سے بچنا ضروری ہے۔ ان سے ، گمراہ سے دور رہنا اچھا ہے۔ ضروری ہے، لازمی ہے۔وہ سب بات صحیح ہے۔مگر شرعی مسئلہ اگرآپ پوچھتے ہیںکہ ان کے ہاتھ کا ذبیحہ کیسا ہے؟ تو اس کے لیے تو کفر کا قطعی علم ہونا چاہیے۔ اور جو کسی کو ہوتا نہیں ہے۔ نہیں ہوتا۔ بہت سارے مولوی حضرات بھی ہیں، ان کو بھی نہیں ہوتا۔ وہ نہیں جانتے۔ کفر کو نہیں جانتے۔ اب سوچیے اتنی بڑی دنیا میں صرف پانچ کو کافر کہنا اور باقی کو گمراہ کہہ کے چھوڑ دینا، اس میں بھی تو کوئی حکمت ہے۔ اس میں تو کوئی مصلحت ہے۔ آپ نے جو سوال کیا ہے، ذبیحے والا معاملہ، آپ یقین جانیے اور امید رکھیے کہ جتنے ذبیحہ کرنے والے ہیں، وہ [عام قصاب ہیں جو]درجۂ کفر تک نہیں پہنچے ہیں۔ لہٰذا ان میں کرید کرنے کی ضرورت ہی نہیں
اس پوری عبارت میں علامہ مدنی میاں نے اگرچہ دیوبندی کا لفظ استعمال نہیں کیا ہے، بلکہ وہابی کا لفظ استعمال کیاہے- جیسا کہ عام طور پر بریلوی حلقے میں دیوبندیوںکو بھی وہابی کہا جاتا ہے-مگر درست بات یہ ہے کہ یہ بیان دیوبندیوں سے متعلق ہے،کیوں کہ اس میں جن علما کی تکفیر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، یہ علماے دیوبند ہیں، جن کی تکفیراعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی نے حسام الحرمین میں کی ہ
یہاں اولاً یہ بات سمجھنے کی ہے کہ علماے دیوبند کی تکفیر فاضل بریلوی اور بعض دیگر علما نے کی، لیکن اس عہد میں اکابر علماےاسلام کی ایسی بڑی تعداد ہے جو اس تکفیر سے متفق نہیں ہے۔ لہٰذااس تکفیر کا وہ درجہ نہیں ہوسکتا جو کسی اجماعی تکفیر کا ہوتا ہے۔ آج بھی عرب اوردیگر بلادشرق وغرب میں انہیں عام طور سےحنفی ماتریدی علما کے طور پر ہی جانا جاتا ہے۔جہاں تک تصوف کی بات ہے تو وہ اپنے اعتبار سے تصوف کی اصلاح کے ساتھ اس کے قائل ہیں، جب کہ اپنے مخالفین کی نظر میں وہ تصوف کی بعض باتوں کے قائل ہیں، جب کہ بعض کے منکر ہیں۔لیکن بہر کیف، ان کی تکفیر نہ تو اجماعی ہے اور نہ ہی جماعتی اور گروہی۔ عالم اسلام قادیانیوں کی طرح نام زد طور پر ان کی جماعتی تکفیر نہیں کرتا
دوسری بات یہ ہے کہ وہ حضرات علما جن کی فاضل بریلوی نے تکفیر کی، وہ دنیا سے رخصت ہوگئے، اب ان کے ذبیحے کی حلت وحرمت کا مسئلہ بھی نہیں رہا، بلکہ وہ رہتے تو بھی عملاً اس مسئلے کا سامنا شاید ہی کسی کو ہوت
اب رہا یہ سوال کہ ان کے متبعین جو لاکھوںکی تعداد میں برصغیر اور باہر کی دنیا میں موجود ہیں، ان کے ذبیحے کا کیا حکم ہے؟تو ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب اس وقت معلوم ہوگا جب یہ معلوم ہو کہ ان پر حکم کفر ہے یا نہیں ہے؟ اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ علماے دیوبند کی تکفیر کرنے والے بریلوی علما کے یہاں بھی ان کی تکفیر افرادی تکفیر ہے، جماعتی تکفیر نہیں ہے۔ یعنی اس وقت کوئی بھی مستند بریلوی عالم پوری دیوبندی جماعت کی تکفیر نہیںکرتا، بلکہ چند افراد کی نام زد طور پر تکفیر کرتا ہے۔علامہ سید محمد مدنی میاں کا مذکورہ جواب اس تناظر میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت علامہ کا شمار اس وقت بریلوی دنیا میں نمبر ایک عالم کے طور پر ہوتا ہے، یا کم از کم وہ صف اول کے منتخب ترین علما میں تسلیم کیے ہی جاتے ہیں۔ ہماری دانست میںبریلوی حلقے کے دیگر اکابر کا بھی تقریباً وہی موقف ہے جو حضرت والا کا ہے، الا ماشاء الل
بریلوی علما میں جو حضرات اس فکر سے مختلف ہیں،وہ بھی کھل کر عام دیوبندیوں کی تکفیر نہیں کرتے، بلکہ وہ ایک مبہم اور عمومی بات کہتے ہیں کہ جو بھی علماے دیوبند-جن کی فاضل بریلوی نے تکفیر کی ہے-کے کفر پر شرعی اطلاع کے بعد بھی انہیں مسلمان سمجھتا ہے، وہ کافر ہے۔ اس مبہم بیانیے کے بعد بہت سے بریلوی علما وہ ہیں جو متعین طور پر کسی بھی دیوبندی عالم یا جاہل کی تکفیر نہیں کرتے، سواے ان کے جن کی تکفیر حسام الحرمین میں ہوچکی ہے۔ صف اول کے ممتاز بریلوی فقیہ ومناظر علامہ مفتی محمدمطیع الرحمٰن مضطر رضوی نے میرے اور میرے احباب کے سامنے اپنا موقف بھی یہی بیان کیا اور کہا کہ جن چار علماے دیوبند کی حسام الحرمین میں تکفیر کی گئی ہے، ان کے علاوہ میں کسی پانچویں دیوبندی کی تکفیر نہیں کرتا، یہاں تک کہ میں مولانا انور شاہ کشمیری اور قاری محمد طیب کی بھی تکفیر نہیں کرتا۔ بعض جو ان سے سخت ہیں وہ دیوبندی علما کی تکفیر تو کرتے ہیں، مگر عوام کی نہیں کرتے۔ البتہ اس جماعت میں ایک شرذمہ قلیلہ ایسا ہوسکتاہے جو عوام وخواص سب کی تکفیر کی جرات کرتا ہو ۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ چوں کہ عوام وخواص کم از کم ان علما کو اپنا پیشوا تو سمجھتے ہی ہیں جن کے کفر پر اعلیٰ حضرت نے فتویٰ دیا ہے اور ہمارے علما نے بار بار اسے واضح کردیا ہے، لہٰذا وہ سب کافر۔یہ حضرات بے چارے عوام پر اسی طرح کفر کا مقدمہ چلاتے ہیں جس طرح کسی شاعر نے اپنےاس شعر میں پروانوں کے قتل کا الزام شہد کی مکھیوں پر ڈال دیا ہ
مگس کو باغ میں جانے نہ دی
کہ ناحق خون پروانوں کا ہوگ
بہر کیف! اگر حسام الحرمین کی تکفیر کو درست مانا جائے پھر بھی دیوبندیوں اور ان کے ذبیحے کے بارے میں وہی حکم ہوگا جو علامہ سید مدنی میاں نےیہاں بیان فرمایا ہے۔ کتاب وسنت اور قیاس وبصیرت سے انہیں کے موقف کی درستگی ثابت ہوتی ہے۔ اس تعلق سےمزید تفصیل وتوضیح شبہہ نمبر چار اور پانچ کے ذیل میں ملاحظہ کیجی
-------جاری ہےے۔اناے:ہ۔ا۔۔ے۔)۔ :۔ہ۔۔ں۔ے۔ا۔)‘ں:)‘ ے:ۃ))‘‘ا:۔۔ہ۔۔)‘:۔ہ۔۔ا۔ )ے؟۳): ں:ے۔ے۔و۔رُاا::۔ر۔د!ے۔۳)۳):۔ہوں:ے۔:۔م۔یی۔!
Post a Comment