عرضِ شکوہ و پیامِ جواب
پیشکش: نور ادب
---
شکوہ
کبھی وعدۂ رحمت، کبھی دعویٔ کرم
کبھی جود و سخا، کبھی لطفِ بیش و کم
ہمیں بخشا تھا نورِ ہدایت کا یہ چراغ
مگر ظلمتِ شب ہم پہ طاری ہے دم بہ دم
کیوں تیرے جہاں میں فقط رنج و غم ہے عام؟
کہاں ہے وہ جہاں جس کا وعدہ تھا محترم؟
تیرے گھر کے مکیں ہی ہیں درماندہ و اداس
جہاں غیر کے محلات روشن ہیں ہر قدم
خُداوندِ جہاں! ہم پہ یہ کس جرم کی سزا؟
کہاں ہم نے تری راہ سے ہٹایا اپنا قدم؟
ہمیں بھیجے تھے احکام جنہیں ہم نے سنا
مگر حکم بجا لانے پہ مشکل ہوئی رقم
---
جواب شکوہ
کہا میں نے کہ اے بندۂ غافل و خفا
کہاں چھوڑی ترے دل نے وہ پہلی سی وفا؟
جو چراغ دیا تھا وہ بجھا خود ہی دیا
نہ ہو مجھ پہ گلہ، تو نے خود کی یہ خطا
مری رحمت کے دروازے ہمیشہ ہیں کھلے
مگر دیکھ، کہاں تیری طلب میں ہے دعا؟
یہ دنیا تو عمل کی ہے، ثمر کی ہے زمین
تو خوابوں میں رہا، تُو نے چھوڑا نہ ہوس کا پتا
نہ مسجد کے رہے، نہ عبادت کے مسافر
یہی ہے تری حالت کا سراسر خلاصہ
جو چاہے تو بدل سکتا ہے تقدیرِ جہاں
اٹھا دامنِ غفلت، یہی ہے بس نسخہ
---
مقطع
عطا! ترک گلہ، کر لے وفا رب سے سدا
یہی ہے رہِ نجات، یہی رازِ بقا
از قلم: غلام مزمل عطا اشرفی
مقام: سہرسہ، بہار
Post a Comment