خواب و حقیقت _ دل کی گہرائیوں سے دریافت

 پیشکش: نورادب 


غزل

یہ خوابِ ہستی بھی کیا انقلاب رکھتا ہے

ہر ایک لمحہ نیا اک حساب رکھتا ہے


فنا کے پردے میں پنہاں ہے رازِ ہستی کا

عدم کا دامن بھی اپنا جواب رکھتا ہے


نظر کو چاہیے گہرائی، فلسفیانہ فکر

کہ یہ جہاں بھی تو اپنا سراب رکھتا ہے


غالب کے رنگ میں دل کا معاملہ دیکھو

ہر ایک دھڑکن میں دل اک عذاب رکھتا ہے


یہ کیا کہانی ہے، اقبال کی زبانی سنو

کہ مردِ مومن بھی اک اضطراب رکھتا ہے


میر کا درد لیے، اشک بہا گئے سب

غموں کا موسم بھی اپنا نصاب رکھتا ہے


خودی کی گہرائی میں جا کے دیکھو عطا

کہ ہر ستارے میں اک آفتاب رکھتا ہے

....

غزل


کہاں سے آئی یہ ہستی کی روشنی، دیکھو
عدم کے پردے میں پوشیدہ زندگی، دیکھو

یہ رنگ و بو کی حقیقت کہاں سمجھ پائے
چراغِ خاک میں جلتی ہوئی ہوا، دیکھو

کبھی وجود کے دامن میں جھانک کر سوچو
یہ خواب خواب سے آگے کی کیا جگہ، دیکھو

غالب کی طرح سوالات دل میں اٹھتے ہیں
کہاں ہے تُو؟ اے حقیقت کی انتہا، دیکھو

اقبال کہتے ہیں خودی میں چھپے ہیں افلاک
تمہیں خبر ہو تو خود کو بنا خدا، دیکھو

میر کی طرح یہ دل بھی شکستہ ہے لیکن
ہر ایک زخم میں چھپتی ہوئی دعا، دیکھو

عطا یہ وقت بھی آئینہ ہے حقیقت کا
ہر ایک عکس میں پنہاں نیا پتا، دیکھو

......

غزل

یہ خواب و خیال، ایک فریب سا لگتا ہے
جہاں کا ہر رنگ اک سراب سا لگتا ہے

عدم کے دامن سے نکلی ہے زندگی شاید
یہ روشنی بھی کوئی جواب سا لگتا ہے

فنا کے ہاتھوں میں چھپے ہیں راز ہستی کے
یہ کھیلِ دنیا عجب کتاب سا لگتا ہے

اقبال کہتے ہیں خودی کو کر بلند تر
ہر اک نفس میں چھپا شباب سا لگتا ہے

غالب کے رنگ میں دیکھو تو دل کا حال عطا
یہ عشق بھی ایک اضطراب سا لگتا ہے
......



غزل 

یہ خوابِ غفلتوں کے سلسلے مٹانے ہیں
چراغِ  دل میں نئے نور اب جلانے ہیں

یہ  وقت  آیا  ہے  تقدیر  کو  بدلنے  کا
جو راستے تھے گم، وہ راہ پھر دکھانے ہیں

عدم سے  ہستی کے  راز  پھر سمجھنے  ہیں
یہ روشنی بھی اندھیروں میں جا چھپاتی ہیں

جو  خاک  بن گئی  تھی  وقارِ ملت.  کی
اسی کے ذرّے سے افلاک تک سجانے ہیں

عطا اُٹھو کہ یہ وقتِ عمل کا لمحہ ہے
جو خواب ٹوٹ گئے تھے، انہیں بنانا ہے


---

غزل 

جہاں میں قوم کو پھر سے مقام لانا ہے
دلوں کے بیچ جو دیوار ہے، گرانا ہے

یہ تفرقے کی زنجیریں ہمیں نہیں جچتیں
سبھی کو ایک محبت میں جوڑ جانا ہے

یہ دین درسِ اخوت کا ہے، سمجھ لو تم
ہر ایک چہرے پہ وحدت کا رنگ لانا ہے

جو صف شکن تھے کبھی، وہ جلال لوٹ آئے
اسی لہو سے شہادت کا خون پانا ہے

عطا یہ وقت ہے مل کر سفر طے کرنے کا
چراغِ وحدتِ ملت کو پھر جلانا ہے


---

غزل

جو دل بجھائے گئے، وہ دیے جلانے ہیں
یہ بزمِ شام کو پھر صبح میں بدلانے ہیں

تمہارے ہاتھ میں ہے روشنی کی تقدیر
یہ بکھرے خواب، حقیقت میں اب سجانے ہیں

یہ وقت کہتا ہے ہر زخم کو مداوا دو
غموں کے دشت میں پھر پھول مسکرانے ہیں

خودی کا درس جو اقبال دے گئے ہم کو
اسی چراغ سے ہر رہ کو پھر سجانے ہیں

عطا اٹھو کہ یہ وقتِ کمال ہے اپنا
ہر اک چراغ کو پھر شمعِ جاں بنانا ہے


---

غزل 

وہ رفعتیں جو تمہارا نصیب تھیں کل تک
انہیں کو پھر سے زمانے میں جگمگانا ہے

یہ آسماں جو کبھی جھک رہا تھا قدموں پر
اسی فلک کو اب اپنے لیے جھکانا ہے

جو علم تھا، جو ہنر تھا تمہارے نام کبھی
انہی چراغوں سے پھر راہ کو سجانا ہے

ہر ایک دل میں وہی عشق پھر جگاؤ تم
کہ جس کی ضرب سے کفر کو مٹانا ہے

عطا یہ قوم ہے اللہ کی امانت بس
اسی کے دین کا پرچم بلند کرنا ہے


---

غزل 

یہ وقت آیا ہے ملت کو پھر بلانے کا
اندھیری شب میں امید کا دیپ جلانے کا

یہ کارواں جو بھٹک کر ہوا ہے بے منزل
اسی کو راہِ وفا پر دوبارہ لانے کا

جو کج روی کے اندھیرے میں کھو گئے ہیں لوگ
انہیں شعور کی منزل پہ اب سجانے کا

زمانہ دیکھے گا پھر عظمتِ گمشدہ کو
یہ دور اپنا ہے، پرچم ہمیں اٹھانے کا

عطا یہ وقت ہے ہر سمت روشنی بھر دو
جہاں بھی ظلم ہو، انصاف کو بتانے کا


---

غزل 

یہ چاند، یہ ستارے، یہ کہکشاں کا نظام
ہر ایک نقش میں پنہاں ہے لاکھوں اِک پیام

جہاں کی گردشیں، لمحوں کے آئینے میں
کبھی سکون کا منظر، کبھی قیامت خرام

یہ خواب، خواب نہیں، زندگی کا راز ہیں سب
یہ ایک پل ہے ابد تک کا اک صدا بہ انجام

عدم کی گود میں پلتا ہے زندگی کا نور
ہر ایک شب کے اندھیرے میں روشنی کا قیام

محبتوں کی حقیقت، فنا کے پردے میں
یہ دل کا زخم بھی کرتا ہے دل کا احترام

خودی کے راز سمجھ، کائنات کی گہرائی
کہ تُو ہے عکسِ خدا، اور تُو ہے خود ہی امام

یہ ہجر، یہ وصال، یہ وقت کا الٹ پھیر
ہر ایک سانس میں پنہاں ہیں داستانیں تمام

عطا یہ شعر فقط لفظ نہیں، حقائق ہیں
جہاں بھی دیکھ، حقیقت کے ہیں قدموں کے مقام


---

غزل 

سوال بنتے گئے، کہانیاں بدلتی گئیں
نظر سے دنیا کی سب پرتیں اُترتی گئیں

جہاں کی مٹی میں راز دفن تھے کس کے
ہزار نقش تھے، سب نشان مٹتی گئیں

خودی کے محور پہ گھومتا ہے وجودِ بشر
یہ خاکی جسم کہاں تک اڑان بھرتی گئیں

محبتوں کے دیے بھی ہوا کے ہمراہ تھے
چراغ بجھتے گئے، آندھیاں اُبھرتی گئیں

کسی نے چاند کی چمک میں خود کو ڈھونڈا تھا
ستارے آنکھوں کی گہرائی میں اترتی گئیں

یہ کائنات، یہ رنگ، یہ روشنی کے اصول
ہر ایک بات پہ صدیاں سکوت کرتی گئیں

عطا یہ دل بھی حقیقت کا آئینہ نکلا
یہ سانس آتے گئے، زندگی بکھرتی گئیں


---

ازقلم: غلام مزمل عطا اشرفی 
مقام : سہرسہ, بہار 



0 Comments

Post a Comment

Post a Comment (0)

Previous Post Next Post