علامہ اقبال کی زندگی، شاعری اور فلسفہ- ایک عہد ساز شخصیت

 پیشکش: نورادب 

علامہ اقبال: ایک عظیم مفکر، شاعر، اور مصلح

علامہ اقبال (1877-1938) برصغیر کے ان چند نابغۂ روزگار شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنے الفاظ بلکہ اپنے خیالات کے ذریعے دنیا پر گہرا اثر ڈالا۔ ان کی شاعری اور فکر مسلمانوں کے لیے ایک عظیم تحفہ ہیں، جنہوں نے ایک خواب دیکھا اور اسے حقیقت میں بدلنے کے لیے جدوجہد کی۔


---

ابتدائی زندگی

علامہ اقبال 9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد شیخ نور محمد ایک دیندار شخصیت تھے، جنہوں نے ان کی ابتدائی تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ اقبال نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں حاصل کی، جہاں فارسی اور عربی زبان پر مہارت حاصل کی۔

ان کی ابتدائی شاعری فطرت اور محبت کے جذبات پر مبنی تھی، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری نے گہرے فلسفیانہ اور انقلابی موضوعات کو اپنایا۔


---

اعلیٰ تعلیم

اقبال نے 1895 میں لاہور کے گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا، جہاں پروفیسر آرنلڈ جیسے عظیم استاد کی رہنمائی حاصل کی۔ بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ گئے:

1905 میں کیمبرج یونیورسٹی سے فلسفہ میں بی اے کیا۔

1907 میں جرمنی کی میونخ یونیورسٹی سے فلسفے میں ڈاکٹریٹ حاصل کی۔

یورپ میں قیام کے دوران مغربی تہذیب کی خامیوں اور مسلمانوں کی زبوں حالی کا گہرا مشاہدہ کیا۔


اقبال نے اپنی مشہور نظم "مسجدِ قرطبہ" اسی دور کے تجربات کے بعد تخلیق کی، جو مسلمانوں کے شاندار ماضی کی گواہی ہے:
یہ سرزمین اقوامِ مغرب کی عظمتوں کا نشاں
زمانۂ حاضر کے معجزوں کا مکاں


---

شاعری اور فکر

اقبال کی شاعری ان کے گہرے فلسفیانہ خیالات کی عکاس ہے۔ ان کی شاعری نے برصغیر کے مسلمانوں کو خوابیدہ حالت سے جگایا۔

خودی کا فلسفہ:
اقبال کے اشعار کا مرکزی نقطہ خودی ہے، جس کا مطلب ہے اپنی پہچان اور مقام کو سمجھنا:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے

ملت کا اتحاد:
اقبال نے مسلمانوں کو ایک ملت کے طور پر متحد ہونے کا درس دیا:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر

عمل کا پیغام:
اقبال نے ہمیشہ عمل کو فوقیت دی:
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی، جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے



---

پاکستان کا خواب

اقبال نے 1930 کے خطبۂ الہ آباد میں مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست کا تصور پیش کیا۔ ان کے یہ الفاظ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے روشنی کا مینار بن گئے:
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی

اقبال کا یہ خواب 1947 میں پاکستان کی صورت میں حقیقت بن گیا۔


---

وفات

اقبال نے 21 اپریل 1938 کو لاہور میں وفات پائی۔ ان کا مزار بادشاہی مسجد کے قریب واقع ہے، جہاں ہر سال ہزاروں لوگ ان سے عقیدت کا اظہار کرنے آتے ہیں۔


---

اختتام

اقبال کی شاعری اور فکر آج بھی زندہ ہیں۔ ان کے خیالات ہمیں سکھاتے ہیں کہ اپنی خودی پہچانو، علم حاصل کرو، اور دنیا میں اپنی منفرد پہچان قائم کرو۔
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی


ازقلم: غلام مزمل عطا اشرفی 

مقام: سہرسہ, بہار 

0 Comments

Post a Comment

Post a Comment (0)

Previous Post Next Post