خاموش چیخ- دل بولتا ہے- مگر کوئی سنتا نہیں



🌙 خاموش‌چیخ
دل بولتا ہے، مگر کوئی سنتا نہیں
✍ غلام مزمل عطاؔ اشرفی — جدید اردو غزل کا ایک فکری و روحانی سفر

🕊 تعارف

یہ غزلیں اس زمانے کی نہیں جو شور مچاتا ہے؛ بلکہ اس دل کی ہیں جو چپ رہ کر بھی بولتا ہے۔ جہاں ضمیر لہو رو رہا ہو، جہاں انصاف خوابوں میں چھپ گیا ہو، جہاں مذہب بھی سیاست کے زخموں سے گزر رہا ہو — وہاں عطاؔ کے اشعار روشنی کی آخری کرن بن کر ابھرتے ہیں۔ یہ شاعری احتجاج بھی ہے، عبادت بھی؛ خاموشی میں لپٹا سچ ہے۔

🌾 غزل ۱ — "یہ دھواں کہتا ہے، کچھ جلتا رہا ہے مجھ میں"
یہ دھواں کہتا ہے کچھ جلتا رہا ہے مجھ میں 🌙
خاک ہونے کا بھی اک قصّہ رہا ہے مجھ میں
کون سنتا ہے یہاں چیخِ بشر کا مفہوم؟
اک زمانے سے کوئی نغمہ رہا ہے مجھ میں
آئینہ روٹھ گیا، چہرہ بدلتا ہی گیا
درد چپ سا مگر پُرمعنیٰ رہا ہے مجھ میں
عقل حیران ہے دل کس کی گواہی مانے
سچ بھی موجود ہے اور دھوکا رہا ہے مجھ میں
اے عطاؔ قوم کی آنکھیں تو کھلی ہیں لیکن
خواب مرمر کے بھی زندہ رہا ہے مجھ میں 💔
— غزل ۱
🔥 غزل ۲ — "یہ زمیں خون میں، آکاش دھواں دیتا ہے"
یہ زمیں خون میں آکاش دھواں دیتا ہے 🌙
دل جلانے کا نیا جواز رواں دیتا ہے
عدلیہ سو رہی ہے شہر کے ماتم تلے
کوئی قاصد نہیں جو خوابِ اماں دیتا ہے
شور بڑھتا گیا منبر کی زبانوں سے عطا
اور ہر لفظ میں اک تازہ فغاں دیتا ہے
اب تو مذہب بھی سیاست کا سہارا بن کر
دل نہیں جوڑے، نیا زخم جُدا دیتا ہے
زخم گہرا ہو تو احساس بھی مر جاتا ہے
وقت بیدار ہے، پر زہرِ زباں دیتا ہے
— غزل ۲
🌑 غزل ۳ — "یہ سناٹا بھی کچھ کہتا ہے"
یہ سناٹا بھی کچھ کہتا ہے، یہ ہوا کچھ کہتا ہے 🌙
خامشی زہر میں لپٹی ہوئی دوا کچھ کہتا ہے
آنکھ بھی نم ہے مگر دل کی خبر کوئی نہیں
آئینہ درد کا، چپ رہ کے بھی صدا کچھ کہتا ہے
ہند میں خون بھی اب رنگِ سیاست میں ڈھلا
یہ زمانہ ہے جو خود اپنا خدا کچھ کہتا ہے
جب عبادت ہو تماشا تو یقیناً اے عطا
سجدۂ شب بھی مجھے دن کی خطا کچھ کہتا ہے
دل کے صحرا میں بھی آہٹ ہے بدن کی شاید
ہر سکوت اپنی آشفتہ نوا کچھ کہتا ہے 💔
— غزل ۳
🌙 غزل ۴ — "یہ زمانہ آئینے سے بھی حقیقت سنتا نہیں"
یہ زمانہ آئینے سے بھی حقیقت سنتا نہیں
دل کے نزدیک اب رہی کب محبت سنتا نہیں 🌙
حرفِ حق لب پر لگا، پتھر برستے دیکھیے
اب کوئی بھی باتِ عدل و عدالت سنتا نہیں
رہنما خود خواہشوں کے اسیر و قیدی ہیں تمام
قوم کو بیدار کرنے کی سیاست سنتا نہیں
عشقِ حق کی راہ میں اب لوگ سمجھاتے نہیں
ذکرِ مولا ہو تو اہلِ عبادت سنتا نہیں
اب انا کے شور میں گم ہے بشر کا اعتبار
روحِ قرآں کہہ رہی ہے، پر نزاکت سنتا نہیں
اے عطاؔ سو بار سمجھایا زمانے کو مگر
اب ضمیرِ دل میں باقی وہ شرافت سنتا نہیں
— غزل ۴
🌾 غزل ۵ — "دھواں سا ہے فضا میں کچھ، ہوا کچھ اور کہتی ہے"
دھواں سا ہے فضا میں کچھ، ہوا کچھ اور کہتی ہے 🌙
خموشی شہر کی اب بھی صدا کچھ اور کہتی ہے
یہ مسجد، وہ چمن، یہ خاک کے لہجے، یہ موسم
ہر اک منظر یہاں کی داستاں کچھ اور کہتی ہے
جہاں انصاف خوابوں کی طرح بکھرا ہوا ہے
وہاں ہر خامشی کی التجا کچھ اور کہتی ہے
ازل سے روشنی کے وارثوں نے خون مانگا
مگر تاریخ کی ہر ابتدا کچھ اور کہتی ہے
یہ بستی، جس میں آفاقی حقیقت سو گئی ہے
ابھی انسان کے چہرے کی حیا کچھ اور کہتی ہے
اے عطاؔ دیکھو تو یہ آنکھیں نہیں، آئینہ ہیں
نظر خاموش ہے، پر روشنی کچھ اور کہتی ہے 💔
— غزل ۵

🕊 اختتامی نوٹ

یہ اشعار اس عہد کی دستاویز ہیں — جہاں سچ بولنا گناہ بن چکا ہے، جہاں ضمیر چیختا ہے مگر سماعتوں پر زنگ چڑھ چکا ہے۔ یہ “چپ کی چیخ” ہے — جو دل بولتا ہے، مگر کوئی سنتا نہیں۔

غلام مزمل عطاؔ اشرفی — سہرسہ، بہار

0 Comments

Post a Comment

Post a Comment (0)

Previous Post Next Post