پیشکش: نور ادب
غزل: سردی کی شامیں
یہ دھندلکے میں لپٹی ہوئی شام کی باتیں
یاد آئیں ہیں بچپن کے وہ کام کی باتیں
چمکتی ہیں ستاروں سی برفیلے ذروں میں
چرچراتی ہیں ہوا میں جو انعام کی باتیں
لحافوں کے سفر میں ہے سکونت کا وہ عالم
جو کرتی ہیں نصیحت کسی آرام کی باتیں
شفق جیسا بدن، رات کا مخملی سایہ
یہ ہیں سردی کی رتوں کے سرانجام کی باتیں
چراغوں کی تمازت بھی لرزتی ہے ہوا میں
فضا میں گونجتی ہیں کسی پیغام کی باتیں
کہیں برفاب سپنے ہیں، کہیں سرد حویلیاں
کبھی خالی گلیوں میں ہیں کہرام کی باتیں
عطا، موسم کی سرگوشی سنو دل سے ذرا تم
یہ ہیں خوشبو کی، شدت کی، الہام کی باتیں
از قلم: غلام مزمل عطا اشرفی
مقام: سہرسہ، بہار
Post a Comment