پیشکش: نورادب
فلسفۂ معراج النبی ﷺ: جدید سائنس اور معجزۂ معراج
واقعۂ معراج النبی ﷺ اسلامی تاریخ کا وہ عظیم معجزہ ہے جس نے انسانی عقل کو حیرت میں ڈال دیا اور آفاقی حقیقتوں کے دروازے وا کر دیے۔ یہ واقعہ نہ صرف نبوت کی عظمت اور کمالاتِ مصطفوی ﷺ کا مظہر ہے بلکہ اللہ کی قدرت اور ربوبیت کا بھی ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔
معجزۂ معراج: عقل اور ایمان کا امتحان
واقعۂ معراج محض ایک واقعہ نہیں بلکہ ایمان بالغیب اور اللہ کی قدرت پر یقین رکھنے والوں کے لیے عقل و شعور کا امتحان بھی ہے۔ یہ واقعہ اس دور میں پیش آیا جب انسانی علم و سائنس کی حدود بہت محدود تھیں۔ صحابۂ کرامؓ نے اس معجزے کو بلا کسی دلیل کے قبول کیا، کیوں کہ ان کے دل یقینِ محکم سے لبریز تھے۔ تاہم، آج کا انسان جو مادّی حقیقتوں اور سائنسی اصولوں کی بنیاد پر ہر چیز کو پرکھتا ہے، معجزۂ معراج کو سائنسی نقطۂ نظر سے بھی سمجھنا چاہتا ہے
---
قرآن و حدیث میں معراج کا تذکرہ
1. قرآن مجید میں اسراء اور معراج
قرآن مجید میں واقعۂ معراج کو دو مراحل میں بیان کیا گیا ہے:
1. اسراء (مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کا سفر)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ ٱلۡمَسۡجِدِ ٱلۡحَرَامِ إِلَى ٱلۡمَسۡجِدِ ٱلۡأَقۡصَىٰ ٱلَّذِي بَٰرَكۡنَا حَوۡلَهُ لِنُرِيَهُۥ مِنۡ ءَايَٰتِنَآۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلۡبَصِيرُ"
(سورۂ بنی اسرائیل: 1)
2. معراج (آسمانوں اور لامکاں تک کا سفر)
سورۂ النجم میں فرمایا:
"ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ۔ فَكَانَ قَابَ قَوۡسَيۡنِ أَوۡ أَدۡنَىٰ۔"
(سورۂ النجم: 8-9)
2. حدیث میں واقعۂ معراج
احادیث میں معراج کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، جن کے مطابق نبی کریم ﷺ نے:
براق پر سوار ہو کر مسجدِ اقصیٰ تک سفر کیا۔
سات آسمانوں پر مختلف انبیاء سے ملاقات کی۔
قاب قوسین کے مقام پر اللہ سے ملاقات کی۔
امت کے لیے نماز کا تحفہ حاصل کیا، جو ابتدائی طور پر 50 تھی لیکن اللہ کی رحمت سے یہ پانچ کر دی گئیں۔
---
جدید سائنس اور واقعۂ معراج
1. روشنی کی رفتار اور براق کی رفتار
آج سائنس یہ تسلیم کرتی ہے کہ روشنی کائنات کی سب سے تیز رفتار شے ہے، جو خلا میں 299,792 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔ آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت کے مطابق کسی مادّی جسم کے لیے روشنی کی رفتار کو عبور کرنا ممکن نہیں۔
لیکن معراج کے سفر میں نبی کریم ﷺ براق پر سوار ہوئے، جس کی رفتار احادیث کے مطابق روشنی سے بھی زیادہ تھی۔ یہ رفتار اللہ کی قدرت کا ایسا مظہر ہے جو سائنسی قوانین کو چیلنج کرتی ہے۔
2. طئی زمانی و مکانی (Time and Space Contraction)
سائنس کے مطابق روشنی کی رفتار کے قریب سفر کرتے ہوئے وقت رک جاتا ہے اور فاصلے سمٹ جاتے ہیں۔ معراج کے دوران نبی کریم ﷺ نے مختصر وقت میں زمین سے آسمانوں کی وسعتیں پار کیں اور واپس آئے۔ احادیث میں آیا ہے کہ سفر کے بعد آپ ﷺ کا بستر ابھی تک گرم تھا اور وضو کا پانی بہہ رہا تھا۔
قرآن مجید میں طئی زمانی کی مثالیں موجود ہیں:
1. اصحابِ کہف: جو 309 سال غار میں سوئے رہے لیکن انہیں یہ مدت ایک دن یا اس کا کچھ حصہ محسوس ہوئی۔
2. حضرت عزیرؑ: جنہیں اللہ نے 100 سال موت کے بعد زندہ کیا، لیکن انہیں وقت کا احساس نہ ہوا۔
3. خلا میں زندگی کے تقاضے
سائنس کے مطابق خلا میں آکسیجن اور دباؤ کی کمی، شدید درجہ حرارت، اور برقی مقناطیسی شعاعوں سے انسانی جسم محفوظ نہیں رہ سکتا۔
لیکن معراج کے دوران نبی کریم ﷺ ان تمام مادی حدود سے ماورا رہے۔ یہ اللہ کی قدرت کا عظیم اظہار ہے۔
4. ملٹی ورس (Multiverse) اور معراج
سائنسدانوں کے مطابق ہماری کائنات کے علاوہ بھی کائناتیں موجود ہو سکتی ہیں۔ معراج کے سفر میں نبی کریم ﷺ کا سات آسمانوں سے گزرنا اور مقامِ لامکاں تک پہنچنا اس نظریے کو ایک روحانی تائید فراہم کرتا ہے۔
---
معراج: سائنس سے ماورا ایک حقیقت
سائنس نے اگرچہ کائنات کے کئی رازوں کو آشکار کیا ہے، لیکن معراج النبی ﷺ ان تمام سائنسی تحقیقات سے بالاتر ایک معجزہ ہے۔ یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اللہ کی قدرت لامحدود ہے اور انسانی علم محدود۔
اقبال نے اس حقیقت کو یوں بیان کیا:
"خبر ملی ہے یہ معراجِ مصطفیٰ سے مجھے
کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں"
---
نتیجہ
واقعۂ معراج نہ صرف اللہ کی قدرت کا عظیم مظہر ہے بلکہ نبی کریم ﷺ کے مقام و مرتبے کی بلندی کا بھی واضح ثبوت ہے۔ یہ معجزہ جدید انسان کو یہ پیغام دیتا ہے کہ مادّی قوانین سے آگے بڑھ کر ایمان بالغیب اور روحانی حقیقتوں پر یقین ضروری ہے۔ معراج کا واقعہ ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ اللہ کی قدرت کے سامنے انسان کا علم اور سائنس کچھ بھی نہیں۔
ازقلم: غلام مزمل عطا اشرفی
مقام: سہرسہ, بہار
Post a Comment