پیشکش: نور ادب
"فلسطین لہو لہو...
ہماری غیرت کہاں ہے؟"
---
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
آج جب فلسطین کے مظلوم عوام لہو میں نہا رہے ہیں، اور جب ظالم قوتیں مسلمانوں کے قبلۂ اول پر قبضہ مستحکم کر رہی ہیں، ایسے نازک موقع پر امت مسلمہ کا فریضہ ہے کہ وہ ظلم کے خلاف ہر سطح پر مزاحمت کرے۔
زیرِ نظر مضمون میں اسی حساس موضوع پر قرآن و سنت کی روشنی میں، فقہی اصولوں اور عالمی مسلم موقف کے تناظر میں روشنی ڈالی گئی ہے۔
اللہ ہمیں حق سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے
---
اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ:
شرعی فریضہ، اخلاقی ذمہ داری اور عالمی مسلم مؤقف
تمہید:
فلسطین کی سرزمین پر جاری ظلم و ستم، معصوم بچوں کا قتل، مساجد کی بے حرمتی، اور انسانی حقوق کی پامالی نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ایسے میں، اسرائیلی مصنوعات کی خرید و فروخت نہ صرف اخلاقی بے حسی کی علامت ہے، بلکہ یہ ایک شرعی اور دینی جرم بھی بن چکی ہے۔
شرعی دلائل:
قرآن مجید:
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
> "وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ"
(نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرو، اور گناہ اور زیادتی پر مدد نہ کرو)
— سورۃ المائدہ: 2
اس آیت کی روشنی میں، کسی بھی ایسے عمل میں شرکت جو ظلم و زیادتی کو فروغ دے، صریحاً ممنوع ہے۔
احادیث مبارکہ:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
> "جس نے کسی مسلمان کے قتل میں آدھے لفظ سے بھی مدد کی، وہ قیامت کے دن اللہ کی رحمت سے مایوس ہو کر آئے گا"
— ابن ماجہ
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ ظلم میں بالواسطہ یا بلاواسطہ مدد کرنا، اللہ کی رحمت سے محرومی کا سبب بن سکتا ہے۔
فقہی اصول:
امام غزالیؒ فرماتے ہیں:
"ظالم کی مدد کرنا، خواہ کسی بھی شکل میں ہو، ناجائز ہے۔"
علامہ ابن عابدین شامیؒ لکھتے ہیں:
"اگر کسی شے سے دشمنانِ اسلام کو طاقت پہنچتی ہو، تو اس کا بیچنا اور خریدنا ممنوع ہے۔"
لہٰذا، ایسی مصنوعات کی خرید و فروخت جو مسلمانوں کے خلاف استعمال ہونے والے ہتھیاروں کی مالی معاونت کرتی ہیں، شرعی طور پر حرام ہے۔
معاصر فتاویٰ:
عالمی علماء کی فتاویٰ:
عالمی علماء کی تنظیم نے حال ہی میں ایک فتویٰ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے:
> "اسرائیل کو کسی بھی قسم کی مدد فراہم کرنا، خواہ وہ مالی ہو یا مادی، حرام ہے۔"
— [Press TV]
انڈونیشیا کی علماء کونسل نے بھی اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کو شرعی فریضہ قرار دیا ہے۔
> — [Inminds]
اسلامی تعاون تنظیم (OIC):
OIC نے بھی اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی حمایت کی ہے اور مسلم ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کریں۔
> — [Wikipedia]
اخلاقی و انسانی پہلو:
انسانی ضمیر کا تقاضا ہے کہ ہم ظلم کے خلاف آواز بلند کریں اور ظالم کی مدد سے گریز کریں۔
معاشی بائیکاٹ ایک پرامن اور مؤثر طریقہ ہے جس کے ذریعے ہم ظلم کے خلاف احتجاج کر سکتے ہیں۔
نتیجہ:
آج اسرائیلی مصنوعات کی خرید و فروخت:
شرعی اعتبار سے حرام،
اخلاقی اعتبار سے قابل مذمت،
اور انسانی اصولوں کے لحاظ سے ظلم کی تائید بن چکی ہے۔
امت مسلمہ کی ذمے داری ہے کہ وہ:
1. اسرائیلی مصنوعات کا مکمل اور شعوری بائیکاٹ کرے؛
2. اسلامی و مقامی مصنوعات کی سرپرستی کرے؛
3. فلسطینی عوام کی مالی اور اخلاقی امداد کو فرض سمجھے؛
4. اور ظلم کے خلاف اپنی آواز دنیا بھر میں بلند کرے۔
یہی ایمان کا تقاضا ہے، یہی انسانیت کی صدا ہے۔
---
نوٹ:
یہ مضمون "نور ادب" کی پیشکش کے تحت، امت مسلمہ کے ضمیر کو جگانے اور فلسطین کی حمایت میں بیداری مہم کا ایک حصہ ہے۔
تمام قارئین سے درخواست ہے کہ اس پیغام کو زیادہ سے زیادہ پھیلائیں۔
---
از قلم:
غلام مزمل عطا اشرفی
مقام: سہرسہ، بہار
Post a Comment