فلسفۂ حال -جدید دور کے آئینے میں غزلیہ اظہار


نور ادب کی پیشکش


فلسفیانہ غزلیں — حالاتِ حاضرہ کے تناظر میں

---

1. غزل — سیاسی استبداد پر

سچ کی آواز کیوں گم گلی گلی میں ہے؟

خوف کی گونج ہر اک صدا دلی میں ہے۔


عدل کا تذکرہ بھی ہے جرم بن چکا،

تیغِ حکمت بھی اب مصلحت چلی میں ہے۔


قید ہیں خواب سب، کھل نہیں سکا منظر،

ایک دیوار سی ہر نئی گلی میں ہے۔


لوگ اب بھی بتاتے ہیں حق کی باتیں،

پر وہی بات بھی ان کی مبتذلی میں ہے۔


کیا عجب دور ہے، ہر یقیں لرزتا ہے،

زندگی اب فقط اک ہَوا چلی میں ہے۔


مقطع:

عطا، جو حرفِ صداقت لکھے، وہ جرم بنے،

یہ کیسی بندشِ فتنہ روا چلی میں ہے۔

---


2. غزل — تہذیبی زوال پر

جو تھا کل علم کا وارث، وہ اب پامال میں ہے،

سراپا جاہلیّت کا عجب اک حال میں ہے۔


نہ اندازِ تکلّم ہے، نہ فطرت کی شرافت،

تمدّن کی زبوں حالی فقط اشکال میں ہے۔


زمانہ چیخ اٹھتا ہے ہماری خامشی پر،

کہ ہر آواز اب قیدِ نئی جنجال میں ہے۔


مروّت، عشق، غیرت سب پرانے لفظ ٹھہرے،

نیا انسان اک چہرا فقط تمثال میں ہے۔


وہی تہذیب جو عالم کی پیشانی تھی کل تک،

اب اس کا نام بھی دفنِ سبک افعال میں ہے۔


مقطع:

عطا کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں آئینے والے،

وہی تصویر اب نقشِ زوال میں ہے۔

---


3. غزل — سائنسی ترقی و انسانی زوال

زمیں چھو چکا، چاند بھی آشنا سا ہے،

مگر آدمی خود سے ہی بے وفا سا ہے۔


مشینوں کی دنیا میں ہم قید ہیں اب،

یہ جینا بھی اب ایک سُنا صدا سا ہے۔


ترقّی ہوئی، پر خلش دل میں باقی،

خموشی کا پہلو بھی کچھ گلہ سا ہے۔


جو رشتے تھے دل سے، وہ کاغذ میں ڈھل گئے،

یہ دنیا اب اک جھوٹ کا آئینہ سا ہے۔


خدا کو بھی ڈھونڈا، مگر مل نہ پایا،

یہ سجدہ بھی کاغذ کی اک دعا سا ہے۔


مقطع:

یہی عطا کی صدا ہے ترقی والوں سے،

کہ انسان اب انسان کا خدا سا ہے۔

---


4. غزل — روحانی خلا پر

لب پہ تسبیحیں، زباں پر بھی دعا سی ہوتی ہے،

پھر بھی دل کی گہرائی میں خلا سی ہوتی ہے۔


بندگی رہ گئی اب رسمی اداکاری تلک،

روح کی گہرائی اب بے مدعا سی ہوتی ہے۔


ذکر، تصوف، سبھی کچھ چل رہا ہے دَور میں،

پھر بھی ہر محفل میں ایک سَدا سی ہوتی ہے۔


منبر و محراب سب روشن، مگر یہ دل نہیں،

نور کی وہ روشنی اب ماجرا سی ہوتی ہے۔


پیار، تسلیم، یقین—سب لفظ رہ گئے فقط،

دل میں لیکن درد کی اک انتہا سی ہوتی ہے۔


مقطع:

عطا کا دل بھی یہ کہتا ہے تنہائی میں،

کہ عبادت تو ہے، پر وہ وفا سی ہوتی ہے۔

---


5. غزل — جامع فلسفیانہ جھلک کے ساتھ

زمانہ چیخ رہا ہے سکوتِ لب کے ساتھ،

صدا ہے قید، بیاں ہے فقط ادب کے ساتھ۔


ہر ایک چہرہ نقابوں میں چھپ گیا ایسا،

کہ آشنا بھی ملے اجنبی طرب کے ساتھ۔


حقیقتوں پہ سوالات اب اٹھائے کون؟

نظر جمی ہے فقط اپنے ہی سبب کے ساتھ



جو روشنی تھی وہ اب دھندلا گئی کیوں کر؟

نکل رہی ہے گھڑی سایۂ شغب کے ساتھ۔


جہاں میں عقل فقط مصلحت بنی ہو اگر،

تو دل کو درد ملے گا فقط سبب کے ساتھ۔


صدائیں بند، قلم بھی خریدنے والے،

گئی ہے بات اثر کھو کے خوش لقب کے ساتھ۔


خود اپنے نفس سے لڑنا ہوا ہے فرضِ عطا،

جہادِ وقت ہے اب فکر کے عرب کے ساتھ۔

---


از قلم: غلام مزمل عطا اشرفی

مقام: سہرسہ، بہار


0 Comments

Post a Comment

Post a Comment (0)

Previous Post Next Post