پیشکش: نورادب
فی زمانہ مدارس میں تدریسی انداز کیسا ہونا چاہیے؟
تعارف
مدارسِ اسلامیہ صدیوں سے دینی علم و تربیت کے مراکز رہے ہیں۔ یہاں سے نہ صرف علماء، فقہاء اور محدثین نکلے، بلکہ ملت کی فکری رہنمائی بھی یہیں سے ہوئی۔ مگر آج کا دور تعلیمی، سائنسی اور ابلاغی سطح پر اتنی تیزی سے بدل رہا ہے کہ پرانے تدریسی طریقے اب نئے ذہن کو پوری طرح گرفت میں نہیں لے پاتے۔ اس لیے آج یہ سوال بہت اہم ہے:
"فی زمانہ مدارس میں تدریسی انداز کیسا ہونا چاہیے؟"
---
1. روایتی تدریس کا وقار برقرار، مگر انداز میں تجدید
مدارس کا اصل حسن اس کی روایت میں ہے۔ درسِ نظامی کی علمی گہرائی، استاذ و شاگرد کا رشتہ، اور نصوص سے قربت، یہ سب وہ خزانے ہیں جو کسی صورت ضائع نہیں ہونے چاہییں۔
مگر محض عبارت خوانی، حافظہ پر زور، اور طویل لیکچرز آج کے ذہن کو متاثر نہیں کرتے۔
لہٰذا ضروری ہے کہ روایتی طریقے کو باقی رکھتے ہوئے اس میں جدت پیدا کی جائے:
استاد کی گفتگو کے ساتھ پریزنٹیشن، چارٹ اور مثالیں
عبارت فہمی کے ساتھ تنقیدی مطالعہ کی مشق
طلبہ کو سوالات اور تشریحی جوابات کی تربیت
---
2. طلبہ کو مرکزِ تدریس بنایا جائے
آج کا تعلیمی نظریہ کہتا ہے:
> "The learner should be at the center of teaching."
مدارس میں طلبہ کو محض سامع نہیں بلکہ فعال شریک بنایا جائے:
سبق کا خلاصہ سنوانا
گروپ ڈسکشن، مباحثہ اور رول پلے
فقہی مسائل پر تحقیقی پریزنٹیشنز
ہر ماہ کوئز یا مختصر امتحان
---
3. استاد: علم کا خزینہ، کردار کا نمونہ
آج کے مدرس کو صرف عالم نہیں بلکہ مربی، مفکر، اور رہنما ہونا چاہیے:
وسعتِ علم، سادگیِ طبع، حلم و بردباری
طلبہ کی نفسیات سے واقفیت
جدید علوم سے بنیادی شناسائی
ٹیکنالوجی کا محتاط مگر مثبت استعمال
> "ایک نیک، باوقار، اور باشعور استاد طلبہ کے دل میں وہ اثر چھوڑتا ہے جو کتابیں نہیں دے سکتیں۔"
---
4. تعلیمی ٹیکنالوجی: موقع اور سہارا
مدارس میں ٹیکنالوجی کو طاغوت سمجھنے کے بجائے خدمتِ دین کا آلہ بنایا جائے:
لیکچرز کی ریکارڈنگ
تعلیمی ویڈیوز و ڈاکیومنٹریز
فقہی موضوعات پر مختصر ویژوئل خاکے
آن لائن کتب خانہ، کلاس، اور سوالات
---
5. ہم نصابی سرگرمیاں: ذہن کو کشادگی
ایک مؤثر تدریس وہ ہے جو دماغ کے ساتھ دل، زبان، اور قلم کو بھی حرکت میں لائے:
تقریری، تحریری، اور مطالعہ جاتی مقابلے
سیرت النبی پر پراجیکٹس
سالانہ تعلیمی و تربیتی کیمپ
عملی تربیت: نماز، وضو، تجہیز، تبلیغ، اصلاحِ معاشرہ
---
6. تربیت اور اخلاق: تعلیم کا روحانی جوہر
تعلیم کا اصل حاصل کردار سازی ہے۔ اگر تعلیم صرف معلومات دے اور باطن خالی رہے تو وہ عالم نہیں، بے عمل عالم بناتا ہے۔
یومیہ تربیتی اقوال
اساتذہ کا عملی نمونہ
تربیتی مجالس اور سیرت کی محافل
باہمی محبت، شفقت اور ادب کا ماحول
---
7. عالم کو زمانے کا راہبر بنانا
آج کا طالبِ علم صرف فقیہ نہیں، مبلغ، مفکر، اور داعی بھی ہو۔ اس کے لیے مدارس میں:
زبان و بیان کی مشق
عصری مسائل کی واقفیت
بین المذاہب مکالمہ کی تربیت
عصری فلسفہ و فتن کا جواب دینے کی صلاحیت
---
نتیجہ: تدریس جو بدلتی دنیا کو سنوارے
مدارس کو زمانے کے بہاؤ میں خود کو محو نہیں کرنا بلکہ رہنما بننا ہے۔ اور یہ تبھی ممکن ہے جب تدریس محض نصاب خوانی نہ ہو بلکہ:
زندگی سازی
بصیرت افزائی
حکمت و حکمت پر مبنی ہو
> "روایت سے جڑے رہتے ہوئے، تجدید کے دروازے کھولنا وقت کی ضرورت ہے۔ مدارس وہ چراغ بنیں جو علم کی روشنی کے ساتھ زمانے کے اندھیروں کو بھی چیر دیں۔"
ازقلم: غلام مزمل عطا اشرفی
مقام: سہرسہ, بہار
Post a Comment