مصنوعی ذہانت اور ایمانِ حقیقی — علم، وجدان اور روحانیت کا مکالمہ | نورِ ادب

مصنوعی ذہانت اور ایمانِ حقیقی — علم، وجدان اور روحانیت کا مکالمہ | نورِ ادب مصنوعی ذہانت اور ایمانِ حقیقی | نورِ ادب

مصنوعی ذہانت اور ایمانِ حقیقی

ایک علمی و فکری مکالمہ — دین، سائنس اور انسان کے تقابل میں | مرتب: غلام مزمل عطا اشرفی (عطا)

کردار: مولانا رافع الدین پروفیسر یوسف حامد زاہد

زاہد:
حضرت! آج دنیا "مصنوعی ذہانت" کی بات کرتی ہے۔ مشین سوچ رہی ہے، روبوٹ فیصلے کر رہے ہیں۔ کیا یہ انسان کی برتری کے خاتمے کی ابتدا نہیں؟
پروفیسر یوسف:
نہیں بیٹے، یہ خاتمہ نہیں، بلکہ امتحان کا نیا مرحلہ ہے۔ انسان نے علم پایا، مگر اپنے خالق کو بھول کر خود کو خدا سمجھنے لگا ہے۔ مصنوعی ذہانت دراصل انسان کے تکبر کی جدید صورت ہے۔
مولانا رافع الدین:
درست فرمایا۔ قرآن نے فرمایا کہ لوگ دنیا کے ظاہر کو جانتے ہیں مگر حقیقت سے غافل ہیں۔ آج کی ذہانت مصنوعی ہے کیونکہ اس میں ضمیر نہیں؛ دل کی روشنی نہیں۔
زاہد:
لیکن حضرت! کیا انسان کا علم ہی تو اس کی فضیلت نہیں؟ خدا نے آدم کو اسماء سکھائے — تو کیا نئی مخلوقات بنانا برا ہے؟
مولانا رافع الدین:
علم عنایتِ الٰہی ہے، مگر جب علم عبادت سے جدا ہو جائے تو وہ فتنہ بن جاتا ہے۔ آدمؑ کا علم امانت تھا؛ ابلیس نے علم کو برتری کا ہتھیار بنایا — یہی فرق آج بھی نمایاں ہے۔
پروفیسر یوسف:
مشین دلیل دے سکتی ہے مگر احساس نہیں رکھتی۔ AI عقل کو بڑھا دیتی ہے، مگر وجدان کا نعم البدل نہیں بن سکتی۔ ایمان منطق سے نہیں، احساس و بصیرت سے جڑتا ہے۔
زاہد:
تو کیا AI دل کو زندہ نہیں کر سکتی؟
مولانا رافع الدین:
بالکل نہیں۔ قرآن میں کہا گیا کہ اندھی آنکھیں نہیں بلکہ دل اندھے ہوتے ہیں۔ AI کتنی ہی ترقی کر لے، دلِ مومن کی بصیرت حاصل نہیں کر سکتی۔
پروفیسر یوسف:
جب کمپیوٹر قرآن کے الفاظ کو پڑھتا ہے تو وہ صرف پیٹرن پڑھتا ہے؛ مومن جب پڑھتا ہے تو "نور" محسوس کرتا ہے — یہی بنیادی فرق ہے۔
زاہد:
شاید مستقبل کا اصل بحران ٹیکنالوجی نہیں بلکہ روحانیت کا زوال ہے؟
مولانا رافع الدین:
درست! سائنس آگے بڑھ رہی ہے مگر انسان پیچھے ہٹ رہا ہے۔ اگر ایمان علم کے ساتھ نہ جوڑا گیا تو آنے والا دور انسان کے بجائے مشینوں کا ہوگا۔
نتیجہ:
علم اگر اللہ کی معرفت کے بغیر ہو تو وہ فتنہ ہے؛ مگر جب ایمان کے نور سے جڑ جائے تو وہ عروج ہے — مشین انسان کی مدد کر سکتی ہے مگر انسان کی روح نہیں لکھ سکتی۔
عملی سفارشات (مختصر):
  • تعلیم میں اخلاقیات اور روحانی تربیت کو لازماً شامل کیا جائے۔
  • ٹیکنالوجی بطورِ آلہ قبول کی جائے، مگر اس کی خودمختاری پر احتیاط ضروری ہے۔
  • مساجد، مدارس اور جامعات میں جدید علوم اور قرآنی بصیرت کا مکالمہ بڑھایا جائے۔

0 Comments

Post a Comment

Post a Comment (0)

Previous Post Next Post