ازل کے دھندلکوں میں روشن ظہور ہے تو
عدم کے بھی پردوں میں پوشیدہ نُور ہے تو
تُو معنیِ امکاں، تُو امکان کی انتہا
وجودِ مطلق کا یکتا حضور ہے تو
تُو صورت بھی، تُو سیرتِ کائنات بھی
یہ حرفوں سے پہلے کا مست شعور ہے تو
تُو لفظِ کنِ اوّلیں، تُو صوتِ ازل کی صدا
تُو بحرِ یقیں کا ازل سے عبور ہے تو
تُو لمحہ بھی، تُو صدیاں بھی، تُو ہی دوام کا راز
یہ گردشِ دوراں کا اصل دستور ہے تو
نہ رنگ و صدا، نہ مکان و زماں کی قید
مگر ہر مکان و زماں میں سرور ہے تو
یہ دل کی دھڑک میں، یہ سانسوں کی خوشبو میں
ہر ایک نفس میں طوافِ حضور ہے تو
تُو مجھ میں، تُو سب میں، تُو خلوت و جلوت میں
یہ وحدت کا آئینہ، عینِ نُور ہے تو
یہ ذرّے، یہ کہکشاں، یہ طلوع و غروب کے رنگ
یہ سب تیرے جلووں سے معمور ہے تو
تُو تحریرِ لوحِ ازل میں رقم حرفِ حق
تُو رازِ بقا، تُو فنا کا سرور ہے تو
یہ موجوں کی سرگوشیاں تیری تسبیح ہیں
یہ بادِ صبا کا غیبی شعور ہے تو
جہاں علم ختم ہو، وہاں عشق جاگتا ہے
وہاں بھی نگاہوں سے ماوراء طور ہے تو
تُو دریا، تُو قطرہ، تُو ساحل، تُو موج بھی
یہ سب ایک منظر میں واحد ظہور ہے تو
تُو کعبۂ دل کا امامِ یقین ہے اے ربّ
تُو سجدہ گہِ عشق کا حضور ہے تو
تری شان میں حرفِ مدح کہاں ممکن
یہ خاموش دل کا سرودِ سرور ہے تو
عطاؔ سوچتا ہے، مگر سوچ تھم جاتی ہے
کہ سوچوں سے بڑھ کر ہر اک طور ہے تو

Post a Comment