پیشکش: نورادب
خواجہ معین الدین چشتی غریب نواز: ایک عظیم روحانی رہنما کی جامع سوانح حیات
خواجہ معین الدین حسن چشتی رحمۃ اللہ علیہ، جنہیں "غریب نواز" کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، اسلامی تاریخ کے ان عظیم صوفی بزرگوں میں شامل ہیں جنہوں نے انسانیت، محبت، اور اخوت کے پیغام کو عام کیا۔ آپ کا ذکر دنیائے اسلام میں ایک مینارۂ نور کے طور پر کیا جاتا ہے۔ یہ مضمون آپ کی ولادت سے وصال تک زندگی کے تمام اہم پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی ایک کوشش ہے
---
ولادت اور خاندانی پس منظر
خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 536ھ (1141ء) میں ایران کے شہر سنجر میں ہوئی۔ آپ کا تعلق ایک معزز سید گھرانے سے تھا، اور آپ کا نسب 14 واسطوں سے امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ تک جا پہنچتا ہے۔ آپ کے والد سید غیاث الدین اور والدہ بی بی ماہِ نور تقوی، روحانیت، اور سخاوت میں مشہور تھے۔ آپ نے والدین کے زیرِ سایہ ابتدائی تعلیم حاصل کی، قرآن پاک حفظ کیا، اور بچپن ہی سے ذہانت اور اخلاق کے غیرمعمولی نمونے پیش کیے۔
منقبت (از عطا):
نورِ ہدایت کے مینار ہیں چشتی
رہبرِ عشاق و انوار ہیں چشت
---
ابتدائی تعلیم اور علم کی جستجو
بچپن ہی سے خواجہ غریب نواز علم و معرفت کی جانب مائل تھے۔ آپ نے خراسان، سمرقند، اور بخارا کے جید علما سے دینی علوم حاصل کیے۔ فقہ، حدیث، تفسیر، اور تصوف جیسے علوم میں مہارت حاصل کی۔ والدین کے وصال کے بعد آپ نے دنیاوی تعلقات کو ترک کیا اور خدا کی معرفت کی تلاش میں نکل پڑے۔
منقبت (از عطا):
علم و عمل کے شہسوار ہیں خواجہ
فیض و کرم کا شاہکار ہیں خواجہ
---
بیعت اور روحانی تربیت
آپ نے حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کے دستِ حق پر بیعت کی۔ اپنے مرشد کی صحبت میں آپ نے صبر، شکر، عبادت، اور ریاضت کے اعلیٰ مدارج طے کیے۔ مرشد نے آپ کو روحانی علوم و اسرار سکھائے اور تبلیغِ دین کے عظیم مشن کے لیے تیار کیا۔ خواجہ عثمان ہارونی نے وصال سے قبل آپ کو اپنا جانشین مقرر کیا اور اسلام کی خدمت کا عظیم ذمہ سونپا۔
منقبت (از عطا):
راہِ تصوف کے امام ہیں چشتی
فیضانِ رب کا نظام ہیں چشتی
---
ہندوستان کی جانب سفر
خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے 1191ء میں ہندوستان کا رخ کیا۔ آپ کی آمد کا مقصد ہندوستان کے معاشرتی اور روحانی حالات کو بہتر بنانا تھا۔ آپ نے اجمیر شریف کو اپنی دعوت و تبلیغ کا مرکز بنایا۔ یہاں کے لوگوں کے دلوں کو آپ نے محبت، اخلاص، اور امن کے پیغام سے جیت لیا۔
منقبت (از عطا):
ہندوستان کی خاک میں چرچا ہے آپ کا
ہر دل پہ لکھا ہوا نقشا ہے آپ کا
---
تعلیمات اور کردار
خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات کا بنیادی نکتہ محبت اور انسانیت تھا۔ آپ نے کسی سے مذہب، ذات، یا طبقے کی بنیاد پر فرق نہیں کیا۔ آپ نے ہر انسان کو برابر سمجھا اور ہر مظلوم و محتاج کی مدد کی۔ آپ کی مجلس میں امیر و غریب سب کے لیے جگہ ہوتی تھی۔
منقبت (از عطا):
محبت کے پیکر، وفا کے علمبردار
چشتی کا کردار، ہے نور کا اظہار
---
کرامات اور اثرات
خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی کرامات آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ آپ نے بیماروں کو شفا دی، غریبوں کی مدد کی، اور مظلوموں کو سہارا دیا۔ آپ کی دعاؤں سے ہزاروں مسائل حل ہوئے، اور لوگوں نے آپ کے کردار کو دیکھتے ہوئے اسلام قبول کیا۔
منقبت (از عطا):
دربارِ چشتی میں برکت کا سماں ہے
ہر دل پہ عطا کا نشانِ جاوداں ہے
---
وصال اور مزار کی زیارت
6 رجب المرجب 633ھ (1236ء) کو خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے وصال فرمایا۔ آپ کا مزارِ مبارک اجمیر شریف میں واقع ہے، جو آج بھی روحانیت، سکون، اور امن کا مرکز ہے۔ دنیا بھر سے لاکھوں زائرین یہاں آتے ہیں اور آپ کے دربار سے فیض پاتے ہیں۔
منقبت (از عطا):
وصال کے بعد بھی عطا جاری رہا
ہر دل نے کہا کہ یہ چراغ باقی رہا
---
نتیجہ
خواجہ معین الدین چشتی غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ آپ کی تعلیمات، کرامات، اور خدمات نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک عظیم درس ہیں۔ آپ نے اپنی زندگی میں محبت، اخلاص، اور خدمتِ خلق کی جو شمع روشن کی، وہ آج بھی ہر دل کو منور کر رہی ہے۔
منقبت (از عطا):
چشتی کا فیضان رہتی دنیا تلک
ہر گوشۂ دل میں ہے ان کا نام تلک
...
تحریر: غلام مزمل عطا اشرفی
مقام: سہرسہ, بہار
Post a Comment