دیوالی پر مسلمانوں کی مبارک بادی _ادبی و فکری تجزیہ
byG.M.Ata Ashrafi -
0
دیوالی پر مسلمانوں کی مبارک بادی — تحریر: غلامِ مزمل عطا اشرفی
دیوالی پر مسلمانوں کی مبارک بادی: شرعی و سماجی تنقیدِ فکر اور اخلاقی رہنمائی
تحریر: غلامِ مزمل عطا اشرفی
دورِ حاضر کے سماجی افق پر تہذیبی اشتراک ایک ایسا حقیقتی رنگ بن چکا ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ بازار ہوں، محلہ ہو یا دفتر — مختلف مذاہب و ثقافتوں کے میعار روزمرّہ زندگی میں ایک دوسرے میں گھلتے ملتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس پس منظر میں دیوالی جیسا تہوار نہ صرف لائٹس اور خوشیوں کا موقع بنتا ہے بلکہ مذہبی علامتوں، جذباتِ وابستگی اور آئینی آزادی کے بعض نازک سوال بھی اٹھاتا ہے۔
مسئلہ مختصر ہے مگر باریک: کیا مسلمان اپنی دینی حد بندیوں کو پامال کئے بغیر دیوالی پر "مبارکباد" دے سکتا ہے؟ اور اگر دے بھی تو کس حد تک، کس نیت سے، اور کن اظہارات کے ساتھ؟ یہ سوال محض عمومی آداب یا تہذیبی نزاکت نہیں؛ یہ ایمان، دعوت، سماجی ہم آہنگی اور شرعی حدود کے درمیان ایک نازک کشمکش ہے — جسے ہم ذیل میں تفصیلاً کھنگالیں گے۔
---
اول: فقہی اساسِ مسئلہ — نصوص اور قواعد کا تقابلی جائزہ
الف — بنیادی قرآنی اصول
قرآنِ مجید اخلاق، انصاف اور معاشرتی حسن سلوک کے بہت سے احکامات بیان کرتا ہے، مگر ساتھ ہی ایمان کی حفاظت اور باطل عقائد سے امتناع کی تلقین بھی کرتا ہے۔ یہاں چند قرآنی اصول قابلِ ذکر ہیں:
1. حفظِ توحید و دوری از تشبّہ بالکفار: اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کو ہدایت دی کہ وہ زبان و عمل میں اللہ کی رضا کو مقدم رکھیں اور باطل کی مجلسوں میں شرکت یا باطل کی تائید سے باز رہیں۔ (تفسیری استدلال: سورۃ الفرقان کی بعض آیات اور عمومی نصوصِ توحید)۔
2. عدل و احسان کے اصول: اللہ نے فرمایا کہ غیر متشدد غیر مؤمنوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کرنے میں کوئی منع نہیں، بشرطِیکہ وہ دین کے معاملے میں دشمنی نہ رکھتے ہوں۔ (سورۃ الممتحنہ: آیت 8 کا عمومی مفہوم)
یہاں نقطۂ امتزاج یہ ہے کہ اسلام اخلاقی رواداری پر زور دیتا ہے مگر توحید کے اصولوں اور دینی حدود کی حفاظت کو کسی صورت نظرانداز نہیں کرتا۔
ب — حدیثِ نبوی ﷺ اور تشبّہ کا حکم
رسولِ اکرم ﷺ کی مشہور روایت ہے: "مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ" — یعنی جو کسی قوم کی شباہت اختیار کرے وہ انہی میں شمار ہوگا۔ مفسرینِ حدیث میں اس کو عموماً اس دائرے میں لیا جاتا ہے کہ دین و دنیا میں ایسی اقدار یا رسوم میں شامل ہونا جو خود اس قوم کے دینی یا تہذیبی تشخص کا اظہار ہوں، مؤمن کی تشخص و ایمان پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔
اس اصول کا اطلاق اس وقت واضح ہوتا ہے جب کوئی فعل، اظہار، یا شرکت اس غیر مسلم تہوار کے مذہبی معنی یا عقائد کے ساتھ براہِ راست مربوط ہو — مثال کے طور پر مخصوص مذہبی رسم، پوجا کا عملی حصہ یا ایسے الفاظ و تصریحات جو قربتِ دل ظاہر کریں۔ ایسے معاملات میں تشبّہ کے قاعدے کے تحت احتیاط لازم آتی ہے۔
ج — فقہی قاعدے جو رہنمائی کرتے ہیں
فقہاء نے عمومی طور پر چند قابلِ اطلاق قواعد بیان کیے ہیں جو ہمارے موضوع میں مددگار ہیں:
قاعدہ: ہر وہ چیز جو دین کی بنیادوں کو کمزور کرے یا دین کے شعائر کی نفی کرے، روا نہیں۔
قاعدہِ ضرر و دفعِ شر: کسی بھی عمل کا جائزہ اس کے فائدے و ضرر کی روشنی میں لیا جاتا ہے — اگر سماجی مصالحت دین کی بنیادوں کو نقصان پہنچائے تو وہ مستحب سے نکال کر ممنوع ہوسکتا ہے۔
قاعدہِ قصد و نیت: عمل کی شرعی حیثیت میں نیت کا بڑا حصہ ہے؛ اسی عمل کا ایک طویل المدتی اظہار مختلف نیتوں میں مختلف شرعی اثرات رکھتا ہے۔
ان اصولوں کے ملاپ سے ہمیں دو شعبے ملتے ہیں: ایک وہ جہاں سماجی اخلاق اور نیکی کے تقاضے ہمیں نرم رویہ اپنانے کا حکم دیتے ہیں، اور دوسرا جہاں شرعی حدود واضح طور پر سختی کا تقاضا کرتی ہیں۔ اس تناظر میں "مبارکباد" جیسے الفاظ کا جائزہ ضروری ہو جاتا ہے。
---
دوم: زبانی اظہار بمقابلہ عملی شرکت — تمیزِ مفہوم کا تقاضا
مسئلہ کی نزاکت اسی میں مضمر ہے کہ "مبارکباد" خود ایک لفظ ہے یا ایک مذہبی اظہارِ رضامندی؟ جب ہم کسی ہندو ہمسائے کو کہا کریں: "Diwali Mubarak" یا "Happy Diwali", تو اس جملے کی شرعی حیثیت متعدد عوامل پر منحصر ہے:
1. نیت (القصد): اگر نیت محض سماجی حسنِ سلوک، خیرخواہی اور ہم آہنگی کا پیغام ہو—اور اس میں کوئی دینی تائید شامل نہ ہو—تو فقہی طور پر اسے مکروہِ صدر میں رکھنا بعض مقلدین کے نزدیک روا رکھا گیا ہے، جبکہ بعض دیگر سخت گیر فقہاء اس میں بھی سختی اختیار کرتے ہیں۔
2. عبارتی وزن اور معنوی سیاق: اگر مبارکباد کے ساتھ ایسے الفاظ یا افعال منسلک ہوں جو اس تہوار کے مذہبی معنی (مثلاً لکشمی و دیوتا کی حمد یا پوجا میں شریک ہونے کی تلقین) کو قبولیت بخشیں، تو یہ قطعی ممنوع قرار پائے گا۔
3. تواتر و تکرار اور ثقافتی شمولیت: ایک مرتبہ کے خیرسگالی اظہار اور مسلسل تہوار میں شریک ہو کر خود کو اس تہذیب کا حصہ بنانے میں فرق ہے۔ مسلسل شرکت تشبّہ، رسم کی قبولیت، یا ثقافتی میل جول میں اس قدر بڑھ سکتی ہے کہ دینی شناخت متاثر ہو۔
پس، لسانی مبارکباد کو خالصتاً لفظی معاملہ نہ سمجھیں — اس کا ساز و کار نیت، سیاق و سباق، اور عملی نتیجے کے لحاظ سے پرکھا جانا چاہیے。
---
سوم: سماجی مصلحت بمقابلہ دینی صداقت — عملی رہنمائی
۱۔ جب مبارکباد دینا قابلِ قبول ہو
جب مقصد محض اخلاقی نیکی اور ہم آہنگی کا اظہار ہو، اور نہ اس میں مذہبی تائید یا رسم و رواج کی منظوری کا مفہوم ہو۔ مثلاً:
"اللہ آپ کو امن اور عافیت دے"
"آپ کے عائلی تعلقات میں خوشیاں اور سکون رہے"
یہ قسم کے الفاظ عمومی انسانی محبت، نیکی اور امن کی دعاؤں کا اظہار ہیں — اور شریعتِ اسلامیہ میں انسانیت کے ساتھ حسنِ سلوک کی حوصلہ افزائی ہے۔
۲۔ جب مبارکباد دینا ممنوع ہو سکتی ہے
جب مبارکباد کے الفاظ یا عمل تہوار کے مذہبی شعائر کو سراہنے یا قبول کرنے کی طرف اشارہ کریں؛
جب مسلمان باقاعدہ طور پر اس تہوار کے مذہبی مراسم میں حصہ لے (مثلاً پوجا کرنا، دیوی دیوتا کے رسم میں شریک ہونا، مذہبی تحریریں یا گیت گانا)؛
جب سماجی دباؤ یا تقلید کی نیت سے مسلم شناخت پسِ منظر میں چلی جائے۔
ایسے مواقع پر فقہی احتیاط، اور بعض اوقات منافیِ امتثال رائے (سخت گیر فتویٰ) مناسب ہے۔
۳۔ عملی تجاویز برائے مسلمان افراد اور کمیونٹی لیڈرز
واضح موقف اپنائیں مگر نرم لہجہ اختیار کریں: جماعتی و سماجی سطح پر ایک مختصر رہنمائی جاری کی جاسکتی ہے: "ہم آپ کی خوشیوں کے لیے دعاگو ہیں، مگر مذہبی رسوم میں شرکت ہمارے عقیدے کے خلاف ہے"۔
دعوت و تبادلۂ امن (Interfaith Dialogue): ماہِ محفل یا فورم رکھیں جہاں تہواروں کے مذہبی معنی واضح ہونے کے ساتھ احترام کا پیغام دیا جائے۔
تعلیم و تربیت: مدارس اور مساجد میں نوجوانوں کو تہذیبی اشتراک کا شعور اور دینی حدود کے معنی تدریس کے ذریعے سمجھائے جائیں۔
سماجی موقعوں پر واضح الگ خاکہ: مثال کے طور پر اگر محلے میں دیوالی کی تقریب ہو تو مسلم کمیونٹی ایک الگ خیرسگالی کارڈ یا پیغام بطورِ دعوت سلامت پہنچا دے جو دینی حدود کا احترام کرے۔
---
چہارم: دستاویزی دلائل اور ادبی تنقید
ادبی طور پر اس بحث میں چند لطیف نکات بھی قابلِ ذکر ہیں:
1. زبان کی مستعدی: لفظ "مبارکباد" خود ایک لغوی اظہار ہے — اس میں شعوری وزن ہوتا ہے۔ ادیب کی حیثیت سے ہم جانتے ہیں کہ الفاظ کبھی کبھار سطحی معنوں سے ماوراء معانی رکھتے ہیں، اس لیے ادبی چناؤ میں احتیاط ضروری ہے۔
2. تصویری تشہیر اور ثقافتی معانی: دیوالی کی روشنی اور مٹھائی کی تصاویر عمومی طور پر خوشی کی علامت ہیں، مگر ان کا دینی تاثر مختلف ہوتا ہے۔ ادیب کو ان نمائشی رموز کی تہہ میں چھپے معنی دریافت کرنے چاہئیں: کیا روشنی بندگی کی طرف اشارہ کرتی ہے یا کسی مخصوص دیوی کی تعظیم؟ اس استدلال کو سمجھ کر بیانیہ ترتیب دیا جائے۔
3. مزاجِ معاشرت و نفسیات: سیاستِ روزمرہ اور معاشرتی توقعات انسان کو باریک توازن پر لا کھڑا کرتی ہیں — ادبی دلائل میں یہ نقطۂ نظر رکھنا ضروری ہے کہ الفاظ و اعمال کا اثر فردی ایمان اور اجتماعی ربط دونوں پر پڑتا ہے۔
---
پنجم: استدلالِ اخلاقی — حدودِ تعامل کا ایک زیربنیادی چہرہ
اسلامی اخلاقی نظام میں تعامل کا ایک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ دعوتِ حق اور حسنِ معاشرت دونوں متوازی طور پر فروغ پاتے رہیں۔ اس توازن کو برقرار رکھنے کے لیے چند اخلاقی اصول زیرِ غور ہوں:
صدقِ نیت: عمل کی سچّی نیت ہی اس کا اصل معیار ہے۔ محض دکھاوے کے لیے یا سماجی دباؤ سے کیا گیا عمل نہ صرف بے نتیجہ ہوتا ہے بلکہ اکثر دینی خسارے کا سبب بنتا ہے۔
عدمِ تشددِ اعتقادی مگر استحکامِ عقیدتی: احترام کے ساتھ اپنی دینی حدود کی واضحی، مگر کسی کے عقیدے پر براہِ راست حملہ نہ کرنا۔
انصاف اور حقوقِ انسانیت: دوسرے کے تہوار کا احترام اس کی آزادی اور وقار سے جڑا ہے — مگر ہر آزادی کی بھی ایک حد ہوتی ہے جب وہ دوسرے کے ایمان کو متاثر کرے۔
---
اختتامِ کلام — خلاصہ، نصیحت اور حتمی رہنما اصول
خلاصہ یہ کہ:
1. مبارکباد دینا بذاتِ خود ایک لفظی اظہار ہے؛ اس کی شرعی حیثیت نیت، سیاق و سباق اور اس کے عملی نتائج پر منحصر ہے۔
2. شرعی حدود وہ ہیں جو توحید اور دینی شعائر کی حفاظت کرتی ہیں؛ اگر مبارکباد یا شرکت ان کے منافی ہو تو وہ ممنوع ہے۔
3. سماجی حسنِ سلوک، نیکی اور امن کی دُعائیں دینا جائز اور واجب اخلاقی عمل ہے، بشرطیکہ وہ دین کے منافی نہ ہوں۔
4. عاقل امت کی روش یہی ہونی چاہیے: نرم مزاجی اور حکمت کے ساتھ اپنے ایمان کو محفوظ رکھنا، اور دوسروں کے ساتھ اُن کے حقوق کے ساتھ پیش آنا۔
میں بطورِ ادیب اور مصلح یہ نصیحت کروں گا کہ الفاظ کے انتخاب میں احتیاط اختیار کریں، دل سے خیر چاہتے رہیں، مگر اپنی دینی شناخت اور اصولوں کو اس قدر نرم نہ ہونے دیں کہ وہ مٹ جائیں۔ تعمیری انداز اختیار کریں: الفاظ جو دلوں کو جوڑیں، مگر ایمان کی دیوار نہ کمزور پڑنے دیں۔
اللہ ہمیں دین میں بصیرت، شجاعتِ اظہارِ حق اور حسنِ سلوک کے جوہر عطا فرمائے۔
آمین۔
✒️ غلام مزمل عطا اشرفی
سہرسہ، بہار
Post a Comment