دیوالی پر مسلمانوں کی مبارک بادی: شرعی، سماجی اور فکری تجزیہ

دیوالی پر مسلمانوں کی مبارک بادی — شرعی، سماجی اور فکری تجزیہ | نورِ ادب

دیوالی پر مسلمانوں کی مبارک بادی: شرعی، سماجی اور فکری تجزیہ

تحریر: غلامِ مزمل عطا اشرفی | بلاگ: نورِ ادب

یہ تحقیقی و فکری مضمون دیوالی پر مسلمانوں کے مبارکباد دینے کے مسئلے کا شرعی، فقہی، اور سماجی تجزیہ ہے۔ اس میں قرآن و حدیث، فقہی اصول، علمائے کرام کی آراء، اور فکری توازن کے ساتھ اسلام کے عدل و اخلاق کے پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

تمہید — مسئلے کی نزاکت

ہندوستان مختلف مذاہب اور تہذیبوں کا ملک ہے، جہاں باہمی میل جول فطری ہے۔ مگر جب مذہبی شعائر سے جڑا کوئی تہوار سامنے آتا ہے، جیسے دیوالی، تو مسلمانوں کے لیے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسی خوشی میں مبارکباد دینا ایمان کے تقاضوں سے مطابقت رکھتا ہے؟

شرعی بنیاد — قرآن و سنت

وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا
“اور (اللہ کے نیک بندے وہ ہیں) جو باطل میں شریک نہیں ہوتے، اور جب لغویات کے پاس سے گزرتے ہیں تو وقار کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔” (سورۃ الفرقان: 72)

مفسرین کے مطابق یہاں "الزور" سے مراد جھوٹے یا باطل تہوار ہیں۔ مؤمن کے لیے لازم ہے کہ وہ ان رسوم سے الگ رہے جو توحید کے منافی ہوں۔

حدیثِ نبوی ﷺ

مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ
“جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے، وہ انہی میں شمار ہوگا۔” (سنن ابی داود)

یہ حدیث اسلامی امتیاز اور دینی تشخص کا مظہر ہے۔ دوسری اقوام کے مذہبی شعائر میں شرکت یا تائید ایمان کے امتیاز کو دھندلا دیتی ہے۔

فقہی آراء — علم و استدلال

  • امام ابنِ القیمؒ: غیر مسلم مذہبی تہواروں میں شرکت یا مبارکباد دینا کفر کے قریب ترین عمل ہے۔ (احکام اہل الذمہ)
  • امام احمد بنِ حنبلؒ: اگر مبارکباد مذہبی شعار کی تائید کے معنی میں ہو تو جواب دینا مناسب نہیں۔
  • فقہِ حنفی: غیر مسلم مذہبی تہوار پر مبارکباد دینا مکروہِ تحریمی ہے، اور اگر عقیدے کی تائید ہو تو حرام۔ (فتاویٰ عالمگیری، جلد ۵)

اسلامی اخلاق اور سماجی توازن

لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ
“اللہ تمہیں ان لوگوں سے نیکی اور انصاف سے منع نہیں کرتا جو دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کرتے...” (سورۃ الممتحنہ: 8)

اسلام عدل و احسان کی تعلیم دیتا ہے۔ غیر مسلموں کے ساتھ نیکی روا ہے، مگر دینی شعائر کی تائید جائز نہیں۔

علماء کی سختی یا شریعت کی بصیرت؟

علماء کی سختی تنگ نظری نہیں، بلکہ ایمان کی حفاظت ہے۔ جیسے ایک طبیب نقصان دہ دوا سے روکتا ہے، ویسے ہی علماء عقیدے کے بگاڑ سے خبردار کرتے ہیں۔ ان کی تنبیہ شریعت کے احترام اور امت کی خیرخواہی پر مبنی ہے۔

ان کی سختی دراصل امت کو دین کی بنیادوں پر قائم رکھنے کا جذبہ ہے، نہ کہ نفرت۔ ایمان کا تحفظ ہی علمائے کرام کی ذمہ داری ہے۔

بیچ کی راہ — رواداری مگر حدود کے ساتھ

  1. اگر نیت انسانی خیرخواہی ہو تو دعائے خیر مباح ہے۔
  2. اگر الفاظ مذہبی تائید کے ہوں تو گریز لازم ہے۔
  3. رواداری کے ساتھ عقیدہ برقرار رکھیے — محبت ہو مگر ایمان محفوظ۔

ادبی و فکری زاویہ

الفاظ نیت کے آئینے ہیں۔ ادیب اور مفکر کو چاہیے کہ وہ ایسا اظہار کرے جو دلوں کو جوڑ دے مگر ایمان کے نور کو دھندلا نہ کرے۔ یہی ایمان دار ادب کا کمال ہے۔

نتیجہ

اگر دیوالی پر مبارکباد دینا مذہبی تائید کے مفہوم میں ہو تو یہ عمل ناجائز یا حرام ہے۔ اگر مقصد محض انسانی خیرخواہی ہو، تو مشروط جواز کے ساتھ درست ہے۔ اسلام کا حسن یہی ہے — عقیدہ مضبوط، اخلاق نرم۔

اختتامی کلمات

دیوالی کے چراغ اگر روشنی پھیلاتے ہیں تو مؤمن کا دل نورِ توحید سے روشن ہوتا ہے۔ ہم اپنے غیر مسلم بھائیوں کے لیے امن اور خوشحالی کی دعا کر سکتے ہیں مگر اپنے ایمان کی روشنی کسی اور چراغ سے مستعار نہیں لیتے۔

✒️

غلام مزمل عطا اشرفی

سہرسہ، بہار

ماخذ و حوالہ جات:
  • القرآن الکریم — سورۃ الفرقان، آیت 72
  • سورۃ الممتحنہ، آیت 8
  • سنن ابی داود، حدیث: 4031
  • احکام اہل الذمہ — ابن القیم الجوزیہ، جلد 1
  • فتاویٰ عالمگیری، جلد 5
  • تفاسیر: ابنِ کثیر، قرطبی، طبری
یہ مضمون تحقیقی و ادبی انداز میں مرتب کیا گیا ہے۔ تمام اقتباسات معتبر کتبِ تفسیر و فقہ سے ماخوذ ہیں۔

0 Comments

Post a Comment

Post a Comment (0)

Previous Post Next Post