غزل: عشقِ مجازی
تخلیق: غلام مزمل عطا اشرفی
یہ غزل عشقِ مجازی کے لطیف اور ملول پہلوؤں کا نفیس اظہار ہے — ہر شعر کو اس ترتیب میں پیش کیا گیا ہے کہ موبائل اور ڈیسک ٹاپ دونوں پر مکمل اور واضح نظر آئے۔
جب نگاہوں نے سکوتِ شب کو چرچا کہہ دیا
دل نے خواہش کو بھی اک طرزِ دعا سا کہہ دیا
زلف کی لہر میں کچھ خواب الجھ کر سو گئے
ہم نے اس موجِ ہوا کو بھی صبا سا کہہ دیا
دل میں اک درد تھا، چپ چاپ بسا رہنے دیا
پھر کسی نے بھی اسے وقت کا دھوکا کہہ دیا
تجھ سے بچھڑیں تو جہاں رنگ بدلنے لگ گیا
ہم نے ہر رنگِ قضا کو بھی وفا سا کہہ دیا
کون سمجھا ہے محبت کے ترنم کا سبق
ہم نے ہر سانس کو تیری ہی صدا سا کہہ دیا
اک تبسم نے کیا عالمِ دل زیر و زبر
ہم نے اس لمحۂ خاموش کو دنیا کہہ دیا
اب وہی دید کا در کھلتا نہیں شام و سحر
اور ہم نے بھی تمہیں خواب میں دیکھا کہہ دیا
عشقِ مجازی نے عطا دل کو نیا رنگ دیا
ہم نے اس رنگِ جنوں کو بھی ادا سا کہہ دیا
غزل: وصال کی تمنا
تخلیق: غلام مزمل عطا اشرفی
وصال کی تمنا کے یہ اشعار جذبِ وصل اور جدائی کے نازک مناظِر پیش کرتے ہیں — ترتیب ایسی رکھی گئی ہے کہ ہر مصرع مکمل طور پر دکھائی دے۔
چاند نے خواب کا چہرہ بھی اجالا کہہ دیا
اور ہم نے تری آہٹ کو نوالہ کہہ دیا
دل کی دیوار پہ تحریر تھی اک لمحے کی
ہم نے اس لمحۂ گم کو بھی زمانہ کہہ دیا
اس کی آنکھوں میں کوئی راز چھپا تھا شاید
ہم نے ہر قطرۂ اشک کو حوالہ کہہ دیا
ایک دیدار نے سینے میں جلایا کیا کچھ
ہم نے اس درد کے طوفان کو نرما کہہ دیا
جب تری یاد نے دستک دی کسی شام سکوں
ہم نے اس شام کو الفت کا تقاضا کہہ دیا
وہ تبسّم جو مرے زخم پہ مرہم بن کر آیا
ہم نے اس لمسِ کرم کو بھی دعَا سا کہہ دیا
اب وصال اُس کا ہوا یا کوئی خوابوں کی جھلک
ہم نے اس لمحۂ حیرت کو تماشا کہہ دیا
دل عطا آج بھی اُس شخص کا قیدی ہے مگر
ہم نے اس قیدِ محبت کو ارادہ کہہ دیا

Post a Comment