خواب اور خاموشی کے درمیان — دو جدید غزلیں از غلام مزمل عطا اشرفی | نورِ ادب

🌙 خواب اور خاموشی کے درمیان — دو غزلیں

تخلیق: غلام مزمل عطا اشرفی

یہ دو غزلیں خاموش احساسات اور خوابیدہ مناظرات کی علامتی زبان ہیں — ہر مصرع ایک سطر میں برابر دکھایا گیا ہے تاکہ پڑھنے اور مشاعرے میں یکساں نفاست قائم رہے۔

غزل ۱

چاند ڈوبا تو کوئی خواب سا بکھرا رہا ہوں میں

رات بھر تیرے خیالوں میں ٹھہرا رہا ہوں میں

ریت پر نام لکھا، اور مٹا بھی دیا — مگر

اُس کے ہونے سے ابھی تک الجھا رہا ہوں میں

چاند چپ، نیند خفا، شہرِ فضا گم سُم ہے

ایک سایہ ہے جو مجھ میں ٹھہرا رہا ہوں میں

آنکھ بھر خواب، لبوں پر کوئی آہٹ باقی

ایک لمحے کے تسلسل میں بہتا رہا ہوں میں

تُو گیا تو مری آواز بدلنے لگی ہے

لفظ بکھرے، مگر اندر سے زندہ رہا ہوں میں

اک سکوت ایسا کہ دنیا بھی جھک جاتی ہے

تیری خاموش نگاہوں سے گزرا رہا ہوں میں

وقت رُک جائے تو ممکن ہے تجھے پا لوں پھر

یہ خلاؤں میں تجھے ڈھونڈتا رہا ہوں میں

دل عطا، اب بھی وہی لمس کسی خواب میں ہے

اور اُس خواب کی دہلیز پہ رکھا رہا ہوں میں


غزل ۲

یاد اُس کی بھی عجب خواب بنی ہے اب تک

دل میں پھیلی ہوئی مہتاب بنی ہے اب تک

چاند چپ، رات خموشی میں پگھل جاتی ہے

اک صدا دل کی غزل ناب بنی ہے اب تک

تیری خوشبو مری سانسوں میں بسی رہتی ہے

زندگی تیری طلب، باب بنی ہے اب تک

بے سبب جاگ گئی شام کی خاموش فضا

کوئی آہٹ مری محراب بنی ہے اب تک

خواب دیکھا تھا جو اک بار تری آنکھوں میں

وہ نظر میری ہی محروم بنی ہے اب تک

چاندنی سوچ کے زینے پہ رکی رہتی ہے

میری تنہائی بھی شاداب بنی ہے اب تک

دل عطا دیکھ، وہی لمس، وہی نرمی ہے

اک صدی بعد بھی وہ خواب بنی ہے اب تک

© غلام مزمل عطا اشرفی · نورِ ادب

0 Comments

Post a Comment

Post a Comment (0)

Previous Post Next Post