🕌 القرویین سے عصرِ حاضر تک
اسلامی نظامِ تعلیم کا ارتقاء، زوال اور احیائے نو کا لائحہ عمل
✍️ تحریر: غلام مزمل عطا اشرفی
(شاعر، محقق، مضمون نگار — بلاگ: نورِ ادب)
تمہید
دنیا کی علمی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی، اس کا پہلا باب اسلام کے نام سے روشن ہوگا۔
انسانی تہذیب کے عروج میں اگر کسی فکر نے علم کو عبادت کا درجہ دیا، اور تعلیم کو تزکیۂ نفس سے جوڑا، تو وہ صرف اسلام ہے۔
اسلامی تعلیم کا تصور محض معلومات کا حصول نہیں، بلکہ علم کے ذریعے انسان کی تکمیل ہے۔ یہی فلسفہ اُس نظامِ تعلیم کی بنیاد بنا جس نے صدیوں تک دنیا کے فکری و تعلیمی محور کو متعین کیا — اور اس نظام کی سب سے روشن علامت ہے: جامعۃ القرویین (Al-Qarawiyyin University)۔
1️⃣ القرویین: علمی تاریخ کی اولین صبح
859 عیسوی میں مراکش کے شہر فاس (Fez) کی گلیوں میں ایک عظیم بیٹی، فاطمہ الفہری، ایک ایسا چراغ روشن کر رہی تھی جو بعد میں دنیا کی سب سے پہلی یونیورسٹی کہلایا۔
"جامع القرویین" کا قیام محض ایک مسجد کی توسیع نہیں تھا، بلکہ یہ فکر و روح کی جامعہ تھی — جہاں تعلیم عبادت تھی، علم بندگی تھا، اور استاد رہبرِ روح تھا۔
یہاں فقہ کے ساتھ منطق، تفسیر کے ساتھ فلسفہ، اور ریاضی کے ساتھ اخلاق پڑھایا جاتا تھا۔ اسی جامعہ سے ابن رشدؒ، ابن خلدونؒ، امام قرطبیؒ، امام سیوطیؒ جیسے نابغہ روزگار شخصیات ابھریں۔
یہ ادارہ علم کی روحانی جڑوں کو زندہ رکھنے والا پہلا درخت تھا، جس کے سائے سے یورپ کی علمی و فکری دنیا نے روشنی حاصل کی۔
2️⃣ القرویین کا نظامِ تعلیم: وہ ماڈل جس نے دنیا بدل دی
القرویین کا نظام کسی ریاستی قانون یا سرکاری نصاب پر مبنی نہ تھا۔ یہ نظام وحی، عقل، اور اخلاق کے مثلث پر استوار تھا۔
نصاب
قرآن و حدیث سے علومِ انسانی تک سب کچھ مربوط۔
فقہ و فلسفہ، علم الکلام، منطق، فلکیات، طب، ریاضی — ایک ہم آہنگ دائرہ علم۔
تدریسی طریقہ
سبق "حلقہ" کی صورت میں۔ سوال و جواب، مناظرہ و محاکمہ — یعنی ذہنی تربیت کا عملی میدان۔
امتحان و سند
القرویین میں اجازہ (Ijazah) وہ پہلا باقاعدہ سرٹیفکیٹ تھا، جو استاد کی اجازت سے شاگرد کو علم کی روایت آگے بڑھانے کا حق دیتا تھا۔ یہی تصور بعد میں Degree اور Diploma کہلایا۔
مقصدِ تعلیم
"فہم کے ذریعے بندگی" — یعنی علم، اخلاق اور عمل کا اتحاد۔ یہی وہ فلسفہ تھا جو علم کو نفع بخش بناتا تھا۔
3️⃣ یورپ نے مسلمانوں سے کیا سیکھا
یورپ کی مشہور جامعات جیسے Bologna (1088)، Oxford (1096)، Paris (1150)، اور بعد میں Cambridge — سب نے القرویین کے نظام سے رہنمائی لی۔
تاریخِ تعلیم کے محقق George Makdisi اپنی کتاب “The Rise of Colleges” میں لکھتے ہیں:
“The very concept of the University, as we know it today, is an Islamic contribution. The system of degrees, faculties, and lectures all trace back to the Islamic madrasah tradition.”
اسی طرح Philip Hitti اور Will Durant بھی اس بات پر متفق ہیں کہ:
“It was the Muslims who made knowledge an organized institution.”
یعنی جدید یونیورسٹی کا بانی اسلام ہے — اور اس کی بنیاد ایک مسلمان خاتون کے ہاتھوں پڑی، جسے آج بھی مغرب اپنے نصاب میں "Patroness of Knowledge" کے لقب سے یاد کرتا ہے۔
4️⃣ زوال کی کہانی: جب علم اپنی روح سے جدا ہوا
دنیا کی قیادت کبھی مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی، مگر جب "تعلیم" صرف نوکری کا ذریعہ بنی، اور "مدرسہ" صرف رسومات تک محدود ہو گیا — تو علم کا چراغ مدھم ہونے لگا۔
- فکری غلامی: استعماری طاقتوں نے مدارس کو دقیانوسی قرار دے کر ان پر قدغن لگائیں۔
- روح سے خالی تعلیم: اسلامی نظام میں علم تزکیہ کے لیے تھا، جبکہ جدید نظام میں علم منافع کے لیے ہو گیا۔ نتیجہ: ذہانت بڑھی، مگر انسانیت گھٹ گئی۔
- نصاب کی تنگی: جہاں کبھی مدارس سائنس و فلسفہ کے منبع تھے، آج وہ بعض جگہ چند فقہی متون تک محدود ہیں۔
- ٹیکنالوجی سے لاتعلقی: جب دنیا ڈیجیٹل عہد میں داخل ہوئی، مدارس میں وہی چٹائیاں اور دیے باقی رہ گئے۔
5️⃣ عصرِ حاضر: تضادات اور امکانات
آج عالمی منظرنامے میں تعلیم سرمایہ بن چکی ہے، اور جامعات صنعت۔ مدارس اب بھی اپنی روحانی بنیاد پر قائم ہیں، مگر عالمی ربط سے محروم۔
فارغ التحصیل طلبہ اخلاص تو رکھتے ہیں، مگر اثر نہیں رکھتے۔ دین سے قریب مگر دنیا سے دور — یہی وہ خلیج ہے جو امت کو کمزور کر گئی۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلامی نظامِ تعلیم کا فلسفہ آج بھی جدید دنیا کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ دنیا کے ذہین ترین مفکرین — جیسے Tariq Ramadan، Hamza Yusuf، Seyyed Hossein Nasr — بارہا کہہ چکے ہیں کہ “Humanity needs moral universities, not just modern ones.”
6️⃣ احیائے نو کی راہیں: علم کو پھر سے عبادت بنانا
اسلامی نظامِ تعلیم کی تجدید کے لیے محض نصاب کی نہیں، فکر کی اصلاح ضروری ہے۔
نصاب میں توازن
قرآن، فقہ، سیرت اور فلسفہ کے ساتھ سائنس، ٹیکنالوجی، معاشیات اور عالمی زبانوں کو شامل کیا جائے۔ یہ امتزاج عصر و شرع کا حسن پیدا کرے گا۔
تحقیقی ادارے
ہر مدرسہ میں Journal of Islamic Studies, Applied Ethics, اور Modern Sciences کے شعبے قائم ہوں۔ فارغین کو صرف عالم نہیں، محقق اور مصلح بنایا جائے۔
تربیتِ کردار
استاد کو محض معلومات دینے والا نہیں، بلکہ روح کا معمار ہونا چاہیے۔ جیسا کہ امام غزالیؒ فرماتے ہیں:
"العلم بلا عمل جنون، والعمل بلا علم لا یکون"
(علم بغیر عمل جنون ہے، اور عمل بغیر علم ممکن نہیں)
ٹیکنالوجی کا استعمال
اسلامی نصاب کو ای-لرننگ، ڈیجیٹل لائبریری، اور عالمی سیمینارز سے جوڑا جائے۔ مدارس کو “Virtual Universities” میں بدلا جا سکتا ہے — جہاں قرآن کی تعلیم آن لائن ہو مگر روحانی اثر برقرار رہے۔
عالمی اتحادِ مدارس
ایک عالمی Islamic Education Council قائم ہو جو نصاب، سند، اور ریسرچ کے معیار کو متحد کرے۔ یہی اتحاد دوبارہ “القرویین” کی روح کو زندہ کرے گا۔
7️⃣ نتیجہ
القرویین نے دنیا کو یہ سکھایا کہ تعلیم وہ ہے جو انسان کو انسان بنا دے۔ اگر ہم نے اس روح کو زندہ کر لیا، تو ایک بار پھر فاس، بغداد، اور دہلی علم و نور کے مرکز بن جائیں گے۔
دنیا نے ہم سے University Model لیا — اب ہمیں دنیا کو Moral Model واپس دینا ہے۔
"مدارس اگر اپنی فکر کی روشنی بڑھا لیں، تو مغرب کے چراغ ماند پڑ جائیں گے۔"
📜 اختتامیہ اقتباس
“The revival of Islamic education is not in imitating the West, but in rediscovering what the West once imitated from us.” — (Dr. Seyyed Hossein Nasr)
───────────────────────────────
یہ وہ صدی ہے جہاں علم دوبارہ روح کی تلاش میں ہے — اور روح، صرف مدارس کے پاس ہے۔
───────────────────────────────
Introduction
Whenever the history of human knowledge is written, its opening chapter will shine under the name of Islam. If any civilization ever treated knowledge as worship and connected education with purification of the soul, it was Islam.
1. Al-Qarawiyyin: The Dawn of the Scholarly World
In 859 CE, in the Moroccan city of Fez, a noble woman named Fatima al-Fihri lit a lamp that would later be known as the world’s first university — Al-Qarawiyyin.
2. The Educational Model that Changed the World
Al-Qarawiyyin rested upon the triad of Revelation, Reason, and Morality. Curriculum, pedagogy, certification (Ijazah), and purpose were all integrated to form a system that combined faith with rational inquiry.
3. What Europe Learned from the Muslims
Europe’s great medieval universities drew inspiration from Islamic madrasah structures; scholars such as George Makdisi have emphasized that the university format — faculties, degrees, and lectures — developed through contact with Islamic institutions.
4. The Story of Decline
As colonial influences, narrow curricula, and detachment from technological advances took hold, madrasahs often retreated from broad scholarship into limited specialization — dimming the light they once shone.
5. The Present Age
Today, the world’s universities are often run like industries while moral education struggles to remain central. The philosophy of Islamic education — integrating ethics with intellect — remains urgently relevant.
6. The Path to Revival
A balanced curriculum, research institutions within madrasahs, character-formation, digital integration, and a global council to harmonize standards form a practical roadmap for renewal.
7. Conclusion
Al-Qarawiyyin taught the world that true education makes humans fully human. If we can revive that spirit, cities like Fez, Baghdad, and Delhi could again become centers of light and learning.
“The revival of Islamic education is not in imitating the West, but in rediscovering what the West once imitated from us.” — Dr. Seyyed Hossein Nasr

Post a Comment