غزلوں کا انتخاب
از: غلام مزمل عطا اشرفی
🌿 یہ انتخاب عطاؔ کے فکری و عارفانہ احساسات کی جھلک ہے—جہاں دل کی خاموشی، روح کی ضیا اور لفظوں کی تاثیر ایک ہی صفحے پر ہم آواز ہیں۔
چراغِ دل کی ضیا تھی، وہ روشنی کہاں گئی
چراغِ دل کی ضیا تھی، وہ روشنی کہاں گئیوہ خوابِ دید کی صورت، وہ دلکشی کہاں گئی
ہوائے شوق کے جھونکوں میں لمس باقی ہےمگر وہ نکہتِ الفت، وہ تازگی کہاں گئی
کبھی نگاہ میں تسبیحِ آرزو جگمگاب اس سکون کی ساعت، وہ بےخودی کہاں گئی
اداس دل پہ عطاؔ اب یہ بار رکھتا ہوںکہ دل تو ہے، مگر اس کی زندگی کہاں گئی
وہ ایک لمسِ تجلی جو دل پہ اترا تھایہ حِس کی دھوپ میں گم ہے، وہ روشنی کہاں گئی
اب وہ لطفِ نظر، وہ جمالِ ادا نہیں رہا
اب وہ لطفِ نظر، وہ جمالِ ادا نہیں رہادل کا موسم وہی ہے مگر وہ ہوا نہیں رہا
جس کے ہونے سے تھی رنگ و بُو کی تمکنتِ جاںاب وہ چہرہ نظر میں رہا، تو رہا نہیں رہا
کبھی دل میں تری یاد آ کے ٹھہر بھی جاتی تھیاب تو وہ سلسلہ بھی رہا، تو رہا نہیں رہا
کسی ساعت میں وہ روشنی اتر آتی تھیاب وہ جلوہ، وہ برقِ تجلی، فضا نہیں رہا
وقت گزرا تو یہ حالِ دل نے کہا عطاؔاب تو خوابوں کا در بھی کھُلا، تو کھلا نہیں رہا
جہانِ رنگ میں ہر شے وہی نہیں رہی
جہانِ رنگ میں ہر شے وہی نہیں رہینگاہِ دل میں مگر روشنی نہیں رہی
یہ کون شب تھی کہ خوابوں کے قافلے ٹھہرےیہ کون صبح تھی، دل کی خوشی نہیں رہی
اداس وقت کا سایہ بھی سانس لیتا ہےمگر وہ لطفِ نظر، آگہی نہیں رہی
خموش حرف میں اب تک وہ لرزشیں باقیمگر صدا میں وہ تاثیر کی نمی نہیں رہی
کبھی میں خود کو تری جستجو میں پاتا تھااب اپنی ذات میں بھی آشنائی نہیں رہی
کبھی تھی خلوتِ جاں میں وصال کی خوشبومگر وہ لمس، وہ نرمی، وہی نہیں رہی
عطاؔ کے شعر میں اک سرمدی تجلی تھیوہ حرف زندہ ہے، آواز وہی نہیں رہی
عجب سکوت میں اکثر پگھل رہا ہوں
عجب سکوت میں اکثر پگھل رہا ہوںتجھے بھلا کے بھی تجھ میں ہی ڈھل رہا ہوں
یہ دل کہ حرفِ دعا بھی نہیں رہا لب پرمگر تری ہی عنایت میں جل رہا ہوں
وفا کے بوجھ تلے دب کے سانس لیتا ہوںخطا کے نقش میں اب تک سنبھل رہا ہوں
نگاہِ یار کا جادو عجب طلسمی ہےمیں خواب خواب میں خود سے نکل رہا ہوں
میں اپنی ذات کے سائے میں گم عطاؔ اکثرکہ روشنی کے طلب میں ہی جل رہا ہوں
جہانِ شوق میں وحشت کی رسم جاری ہے
جہانِ شوق میں وحشت کی رسم جاری ہےسکونِ دل کی تمنا بھی اختیاری ہے
ہوا میں زہرِ صداقت گھلا ہوا جیسےیہ دوستی بھی زمانے کی کاروباری ہے
نہ حرفِ عشق سلامت، نہ اہلِ دل باقیمحبتوں کی یہ مٹی بھی خاکساری ہے
نگاہِ یار میں تسبیحِ درد گنتا ہوںیہ بندگی مری دراصل بادشاہی ہے
وہ جن کو قلب سمجھتا تھا، آئنے نکلےعجب فریب کی صورت یہ خودنگاری ہے
شکستِ خواب سے رشتہ سنبھال رکھا ہےیہ دل بھی عشق کے ہاتھوں کی یادگاری ہے
کبھی تو ابرِ کرم یوں برس کے کہہ جائےکہ خاکِ رہ بھی تمنا کی زخمداری ہے
جہانِ حرف میں معنی کے موتی ملتے نہیںیہ خامشی مرے لب پر بھی شاعری ہے
لبوں پہ نام ترا آئے، دل جھکانے لگےیہی ادب کی حقیقت، یہی نزاری ہے
عطاؔ کے شعر میں تاثیر خود وہ بول اُٹھییہ نطقِ دل کی نہیں، روح کی عباری ہے

Post a Comment