دہر کی تلخی اور امید کی کرنیں


"دہر کی تلخی اور امید کی کرنیں"


غزل 1:


دہر میں سناٹے ہیں، فضا میں گرداب ہے

دہر کے تقاضوں میں، انسان بے خواب ہے


خودغرضی کا عالم ہے، بے حسی کا رواج

رہ گئے فقط، دکھوں کے اندر عقاب ہے


سچائی کا جو در ہے، وہ بند سا ہے ہمیشہ

اب تو کذب کی چمک میں ہر طرف کتاب ہے


دل میں ملال، زبان میں چپ کی آواز

وقت کے دریچوں میں، غم کا جواب ہے


سایہ اندھیروں کا، اجالوں پہ غالب ہے

حالاتِ عالم میں، امید کا سراب ہے


مگر امید کی کچھ کرنیں ابھی باقی ہیں

ہمیں بھی یہی یقین ہے، کچھ تو جناب ہے


عطا کی دعا ہے، جب تک ہے یہ کائنات

حق کی روشنی میں، جینا سراب ہے



---


غزل 2:


دہر کی ہوا میں ہے اک تیز شور سا

زندگی کی راہوں میں ہے دکھوں کا اور سا


خودغرضی نے لے لی ہے انسانیت کی گلی

اب دلوں میں رہ گئی ہے بس کینہ کا دور سا


دولت کی چمک میں، سچ کا گزرنا مشکل

چہرے پہ مسکراہٹ ہے، اندر کا فطور سا


خوابوں کی صورت میں اب تلخی کا سامنا ہے

ہر دل میں چھپی ہوئی ہے اک غم کی لور سا


مگر عطا کا عزم ہے، ہم کبھی نہیں ہاریں

غم کی راتوں میں چھپے، اک نیا نور سا



---


از قلم

غلام مزمل عطا اشرفی

مقام سہرسہ، بہار

0 Comments

Post a Comment

Post a Comment (0)

Previous Post Next Post