چراغِ اشرفیت- ایک خراجِ عقیدت

 

پیشکش:نورادب

چراغِ اشرفیت: ایک خراجِ عقیدت

از: غلام مزمل عطا اشرفی، سہرسہ (بہار)

---

جب روشنی بکھیرنے والے چلے جاتے ہیں

تو اندھیرے سوال کرتے ہیں کہ اجالا کہاں ہے؟

مگر کچھ ہستیاں ایسی ہوتی ہیں

جن کا اجالا ان کے وصال کے بعد بھی قائم رہتا ہے!

ایسی ہی ایک ہستی، ایک ولی کامل، مرشدِ برحق، مبلغِ عشقِ مصطفی،

حضرت سید محمد مجتبیٰ اشرف اشرفی الجیلانی قدس سرہ العزیز تھے،

جنہیں دنیا "اشرف الاولیا" کے لقبِ جلیل سے یاد کرتی ہے۔

---

نسبی عظمت، روحانی رفعت

آپ کا تعلق خانوادۂ اشرفیہ کچھوچھہ سے تھا،

جہاں ہر فرد علم، تقویٰ، فقر، اور ولایت کی روشن مثال تھا۔

والدِ گرامی حضور تاج الاصفیا اور جدِّ امجد اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کی روحانی وراثت آپ کے رگ و پے میں رواں دواں تھی۔

---

ولادتِ نورانی

۲۶ ربیع الآخر ۱۳۴۶ھ / ۲۳ اکتوبر ۱۹۲۷ء کو کچھوچھہ مقدسہ میں آپ نے آنکھ کھولی۔

گویا چراغِ اشرفیت میں ایک اور نور بھرا گیا۔

---

تعلیم و تربیت: عشقِ علم کا سفر

چار سال چار ماہ چار دن کی عمر میں رسمِ بسم اللہ ادا ہوئی۔

ابتدائی تعلیم مدرسہ اشرفیہ سے شروع ہوئی،

اور جامعہ اشرفیہ مبارک پور سے سندِ فراغت حاصل کی۔

آپ نے ان اساتذہ کی صحبت پائی جن کی زبان سے نکلا ہر لفظ حکمت سے لبریز ہوتا تھا۔

---

اشرفیت کا تاج

آپ کو سلسلہ قادریہ، نقشبندیہ، اشرفیہ میں بیعت و خلافت

اعلیٰ حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ سے ملی۔

یہ فیضان آپ کے وجود سے نکل کر

جہالت کے اندھیروں میں اجالے کی مانند پھیلنے لگا۔

---

تبلیغ و اصلاح: عشق کا قافلہ

یوپی، بہار، بنگال، جھارکھنڈ کے وہ علاقے

جہاں ایمان تو تھا، علم کی روشنی کم تھی—

آپ نے ان بنجر زمینوں کو سیراب کیا،

بدعقیدگی کے اندھیروں میں سنی عقیدے کی شمع روشن کی۔


ایک شعر خراج میں:

چراغِ دین کو پھر سے جلا دیا اُس نے

جہاں میں روشنی پھیلائی اشرف الاولیانے

مخدوم اشرف مشن: ایک خواب کی تعبیر

۱۲ شوال المکرم ۱۴۱۳ھ / ۴ اپریل ۱۹۹۳ء کو آپ نے

"الجامعۃ الجلالیہ العلائیہ الاشرفیہ" کی بنیاد پنڈوہ شریف میں رکھی۔

یہ وہی زمین تھی جہاں سات سو علماء کی علمی رونقیں تھیں،

جو وقت کی گرد میں مدفون ہو چکی تھیں۔

آپ نے وہاں علم کے چراغ جلائے، تصوف کے خیمے نصب کیے،

اور دین کی اصل روح کو پھر سے زندہ کیا۔

---

فنا کا ظاہری منظر، بقا کا حقیقی جلوہ

جمعہ، ۲۱ ذی القعدہ ۱۴۱۸ھ / ۲۰ مارچ ۱۹۹۸ء کو

آپ نے ظاہری پردہ فرمایا،

لیکن آپ کی روح آج بھی مخدوم اشرف مشن کے

در و دیوار میں سانس لیتی ہے۔

ابرِ رحمت ان کی مرقد پر گہر باری کرے

حشر تک شانِ کریمی ناز برداری کرے

---

آخری پیغام: اتحاد کی صدا

جیسا کہ حافظ ملت علامہ شاہ عبدالعزیز محدث مرادآبادی نے فرمایا:

"اتفاق زندگی ہے اور اختلاف موت"

آپ کی پوری زندگی اسی پیغام کی عملی تصویر تھی۔

آپ نے قوم کو جوڑنے، سنوارنے، اور جگانے کا کام کیا۔

---

اختتامی شعر:

جب تک ہے روشنی کا یہ اشرفی نشان

تب تک رہے گا زندہ اشرف کا کاروان



0 Comments

Post a Comment

Post a Comment (0)

Previous Post Next Post