جمالِ سمنانیؒ-نذرانئہ عقیدت


سلطان المخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانیؒ کی شان میں عارفانہ و روحانی منظومات کا نذرانۂ عقیدت

✍️ غلام مزمل عطاؔ اشرفی، سہرسہ، بہار

---

تمہید:

💠 درِ عرفان کے روشن چراغ: حضرت مخدوم اشرف سمنانیؒ کی شان میں ایک روحانی پیشکش

پیشکش: نورِ ادب


بسم اللہ الرحمن الرحیم

نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم

دل کی زمین پر جب معرفت کی بارش اترتی ہے تو اشتیاق کے سبزے اگتے ہیں، اور یہ سبزے جب حرف بنتے ہیں تو تخلیق جنم لیتی ہے—ایسی ہی ایک تخلیق آپ کی نذر ہے۔

یہ روحانی منقبت حضور سلطان سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کی نعلینِ پاک کے تصدق میں ہے، جس میں عشق، عرفان، استعارہ، قافیہ و ردیف کی لطافت، اور کلاسیکی شاعری کی لطیف روشنی شامل کی گئی ہے۔

---

✦ 1. جمالِ سمنانیؒ

محویتوں میں گم ہے، جمالِ سمنانیؓ

تجلیوں کا دریا، کمالِ سمنانیؓ


ہے لامکاں سے آئی، صدا دلوں میں روشن

ہے قدس کی تجلی، مثالِ سمنانیؓ


دلوں کو معرفت کی، جو راہ دکھا دے

ہے وہی رہبرِ حق، وصالِ سمنانیؓ


نہ رہ گیا کوئی غم، نہ فاصلہ کوئی

جو دیکھ لے فقط اک، جمالِ سمنانیؓ


کہیں وہ نقشِ پا ہے، کہیں نفس کی حکمت

ہے حرف حرف حکمت، کمالِ سمنانیؓ


شریعت و طریقت، حقیقت و معرفت

ہیں جمع ان میں سب کچھ، زوالِ سمنانیؓ؟


زوال کیسی ہستی، جو مرجعِ جہاں ہے

ازل سے تا ابد ہے، جلالِ سمنانیؓ


نظر میں ہے محمدؐ، دل میں علیؑ کا نور

ہے وارثِ حقیقت، نوالِ سمنانیؓ


کچھوچھہ ہو کہ بغداد، ہر ایک کوچہ روشن

جہاں ہوا ہے سایہ، خیالِ سمنانیؓ


ہزار سال گزری، مگر ہے فیض جاری

ہے وقت کا قلندر، کمالِ سمنانیؓ


؏ عطاؔ ہو بخششوں میں، اسے بھی بس عطا ہو

جو مانگ لے درِ پر، سوالِ سمنانیؓ

---

✦ 2. در زبانی، مخدومِ سمنانیؒ (فارسی زبان میں)

دل جز تو نبیند در زبانی، مخدومِ اشرف سمنانیؒ

تو نورِ دل و جانِ روانی، مخدومِ اشرف سمنانیؒ


در خلوتِ شب سوزِ وجانی، مخدومِ اشرف سمنانیؒ

تو مونسِ راہِ عاشقانی، مخدومِ اشرف سمنانیؒ


در سیرِ وجودم روشانی، مخدومِ اشرف سمنانیؒ

بر تختِ خرد شاہِ معانی، مخدومِ اشرف سمنانیؒ


در کعبۂ دل نغمه نهانی، مخدومِ اشرف سمنانیؒ

در نَفْسِ عطاؔ نُورِ زبانی، مخدومِ اشرف سمنانیؒ


تو صبحِ صفا، مهرِ ربانی، مخدومِ اشرف سمنانیؒ

تو سِرِ کلامِ آسمانی، مخدومِ اشرف سمنانیؒ


در چشمِ تو دریائے فانی، مخدومِ اشرف سمنانیؒ

در ذکرِ تو گم شرحِ جانی، مخدومِ اشرف سمنانیؒ


گر تُو نَبُدی، شب تھی خزانی، مخدومِ اشرف سمنانیؒ

تو قبلهٔ دل، قبلہ‌ نشانی، مخدومِ اشرف سمنانیؒ


؏ عطاؔ شدہ مست از نشانی، مخدومِ اشرف سمنانیؒ

در دیدنِ تو گُم زبانی، مخدومِ اشرف سمنانیؒ

---

✦ 3. چراغِ عرفاں

ہر طرف روشن ہوا اشرفؒ کے عرفاں کا چراغ

بن گیا ہدایتوں کا، فیضِ سبحاں کا چراغ


ترک کی سلطانی و شاہی، کیا فقر اختیار

مل گیا دل کو حقیقت کا، پریشاں کا چراغ


چھوڑ کر دنیا کی راحت، پا لیا اللہ کو

جل اٹھا سینے میں قربِ حق کا، پنہاں کا چراغ


خاک کچھوچھہ کی جس نے چوم لی نسبت سے وہ

بن گیا عرفاں کے گلشن میں بہاراں کا چراغ


درسِ قرآن و حدیث و علم و عرفانِ صفا

بخشیے ہر بزم کو وہ علم و عرفاں کا چراغ


چمکایا دین کا چہرہ، جلا دل کا اندھیرا

سرخرو ہر شخص ہو جس نے لیا جاں کا چراغ


قلبِ شبنم میں جلا ہر غم کا اُجیارا دیا

اشرفی نسبت سے روشن ہو گیا غم کا چراغ


اے "عطا" خاموش مت ہو، لکھ دے تُو بھی کچھ کمال

پاس تیرے بھی ہے مخدومِ سمنّا کا چراغ

---

✦ 4. تو رشکِ دلِ روحانی

تو رشکِ دلِ روحانی، یا مخدومِ اشرف سمنانیؒ

سر تا بہ قدم تو نورانی، یا مخدومِ اشرف سمنانیؒ


واللہ ہے تُو یکتانی، یا مخدومِ اشرف سمنانیؒ

تو جلوۂ ذاتِ ربّانی، یا مخدومِ اشرف سمنانیؒ


تو شمسِ درخشاں طیبہ کا، تو ماہِ شبِ عرفانی

ہر رنگ میں تو سبحانی، یا مخدومِ اشرف سمنانیؒ


میں گمشدہ راہی فقر کا، تُو کشتیٔ بحرِ ایمانی

تو موجِ نجاتِ روحانی، یا مخدومِ اشرف سمنانیؒ


ذکرِ ترا ہر سانس میں ہے، تسکینِ دلِ حیرانی

تو مرہمِ قلبِ انسانی، یا مخدومِ اشرف سمنانیؒ


تو قطبِ زماں، سلطانِ جہاں، تو وارثِ علمِ ربّانی

تو مرکزِ نورِ عرفانی، یا مخدومِ اشرف سمنانیؒ


دل، جاں، جگر، سب کچھ قرباں، اس عشق پہ میں قربانی

سر رکھ کے مروں میں قربانی، یا مخدومِ اشرف سمنانیؒ


اعجاز تری نسبت کا ہے، یہ عشق نہیں حیرانی

بے خود ہوں تری وجدانی، یا مخدومِ اشرف سمنانیؒ


تری نسبت عطاؔ کو کافی ہے، سب نسبتوں پر قربانی

یہ امر نہیں کچھ حیرانی، یا مخدوم اشرف سمنانیؒ

---

✦ 5. اشرفی نسبت و ولایت

ولی کامل، شریعت کا، وہ احیا کا نشانیؒ

تصوف کا وہ گوہر ہے، جہانگیر سمنانیؒ


وہی اشرف کا در روشن، وہی نسبت خزانی

وہی اسلوبِ قرآنی، وہی تفسیرِ جانی


کبھی غزنی، کبھی بغداد، کبھی دہلی کا بانی

نظامی ہو، قریشی ہو، وہ سب کے روحانی


علیؑ کا ذکر دل میں ہے، زباں پہ ہے ربانی

مدینے سے ہے نسبت بھی، ہے فقرِ نعمانی


؏ عطاؔ کو بھی عطا بخشی، نہ چھوڑی کوئی ویرانی

جمالِ اشرفی نے بخش دی دل کی روانی

---

✦ 6. عرسِ نور و کرم

رونقیں در پہ ہیں مخدومِ کرم کی کیا کہنا

چمک اُٹھی ہے فضا، جلوۂ شم کی کیا کہنا


چراغِ قلب جلے، ذکرِ حرم کی کیا کہنا

فضا میں مہک گئی بادِ شمم کی کیا کہنا


گلوں پہ نعت کے موتی ہیں بکھرتے ہر لمحہ

زباں پہ نور ہے لفظوں کی قسم کی کیا کہنا


درِ سمنان پہ حاضر ہے جہاں کا دیوانہ

یہی تو خانقہی عشق و کرم کی کیا کہنا


قلم بھی جھوم اٹھے، ذکر ہو جب ولایت کا

یہ شانِ اشرفی، نسبتِ عمم کی کیا کہنا


قدم قدم پہ کرامت کے ستارے چمکے ہیں

وہ خاکِ در ہے کہ تختِ عجم کی کیا کہنا


دعا کی آنکھ سے اشکوں کا وضو لے کر آؤ

یہ عرسِ پاک ہے، ساعتِ دم کی کیا کہنا


زمیں بھی سجدہ کرے، عرش بھی خوشبو دے

یہ جشنِ نور ہے، ساعتِ غم کی کیا کہنا


؏ عطاؔ پہ کرم ہوا، ذکر ہوا مقبول یہاں

قلم کو فیض ملا، بندۂ کم کی کیا کہنا


اختتامیہ

یہ نذرانۂ عقیدت اُس دربار کی طرف جھکتی ہوئی پیشانی ہے، جہاں سے معرفت کی روشنی، ولایت کا فیضان، اور عشقِ مصطفیٰؐ کا رنگ ملتا ہے۔

یہ منظوم کلام نورِ ادب کی ایک روحانی کاوش ہے جس میں جمالِ اشرفی کا فیض جلوہ گر ہے۔

---

🌿 قارئین سے گزارش

اگر یہ کلام آپ کے دل کو چھو جائے، تو:

🔸 اسے اپنے حلقۂ محبت میں ضرور بانٹیں

🔸 ہمیں اپنی بصیرت افروز آراء سے نوازیں

🔸 اور نورِ ادب کے سفر میں اپنا حصہ شامل کریں

📌 تبصرہ لکھنا نہ بھولیے…!

✍️ ہم منتظر رہیں گے آپ کی رہنمائی اور دعاؤں کے…

---

📅 اشاعت: عرسِ پاکِ سمنانی کے مقدس موقع پر

📍 سہرسہ، بہار

📘 ادارہ: نورِ ادب

✍️ غلام مزمل عطاؔ اشرفی (سہرسہ, بہار) 


0 Comments

Post a Comment

Post a Comment (0)

Previous Post Next Post