عرسِ پاکِ شہِ سمناں میں کچھوچھہ چلیے

پیشکش: نورادب  

🌸 عرسِ پاکِ شہِ سمناں میں کچھوچھہ چلیے

خانقاہِ اشرفیہ کی روحانیت، ولایت اور نسبتوں کا ایک منظوم سفر

✍️ از: غلام مزمل عطا اشرفی (سہرسہ بہار) 

---

✨ تمہیدی تحریر

ہر سال کچھوچھہ مقدسہ میں منعقد ہونے والا عرسِ شہِ سمناں، صرف ایک خانقاہی تقریب نہیں بلکہ روحانی تجدیدِ عہد کا عالمی موقع ہوتا ہے۔

یہاں مخدومِ پاک، حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانیؒ کی بارگاہ میں ہزاروں عشاق حاضر ہو کر فیض و نسبت کی خیرات پاتے ہیں۔


یہ منقبت، ان ہی روحانی نسبتوں، ولایتوں اور دینی خدمات کا منظوم سفر ہے — جو خانوادۂ اشرفیہ کے مشائخ، موجودہ سادات، مدارس، اداروں اور فقراء کی حیات و خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کرتی ہے۔

اس میں "کچھوچھہ چلئے" کی مسلسل دعوت قاری کو روحانی قافلے کا ہم سفر بنا دیتی ہے۔

---

📝 اہم نوٹ برائے قارئین

مندرجہ ذیل اشعار —

عرسِ پاک شہِ سمناں میں کچھوچھ چلئے

موسمِ بادِ بہاراں میں کچھوچھ چلئے

ظلمتِ قلب کو پر نور بنانے کے لیے

بارشِ رحمتِ یزداں میں کچھوچھ چلئے

یہ مطلع — یعنی ابتدائی دونوں اشعار — ایک معروف و محترم شاعر کے قلم سے ماخوذ ہیں۔ اس منقبت کے آغاز میں ان اشعار کو خراجِ تحسین اور فنی ربط کے جذبے کے ساتھ شامل کیا گیا ہے تاکہ کلام کی روحانیت، ادبی جمالیات اور خانقاہی فضا کا جمال قائم رہے۔

باقی تمام اشعار، ترتیب، مضامین اور اسلوب خاکسار غلام مزمل عطا اشرفی کی تخلیق ہیں۔


یہ وضاحت اس لیے ضروری سمجھی گئی کہ اصل شاعر کے حقِ تخلیق کا احترام کیا جائے اور قاری کو حقیقت سے آگاہ رکھا جائے۔

---


🌿 منقبت: عرسِ پاکِ شہِ سمناں میں کچھوچھہ چلیے


مطلع

عرسِ پاک شہِ سمناں میں کچھوچھ چلئے

موسمِ بادِ بہاراں میں کچھوچھ چلئے

ظلمتِ قلب کو پر نور بنانے کے لیے

بارشِ رحمتِ یزداں میں کچھوچھ چلئے


اشعار

1

جس زمیں پر چمکیں انوارِ ولایت کی لو

شہر وہ مدینۃ الاولیاء ہے بے شک خو

دید ہو چہرہ اولادِ حسن، سادات ہو

ذکر و نور و نظر کے کارواں میں کچھوچھہ چلئے


2

تارکِ تاج و سلطنت، زہد کا جو تاجدار

سلطان اشرفِ سمنانیؒ، ہے غوثِ روزگار

مہرِ غوثیت کے روشن ترجماں وہ شاہکار

بیکسوں کی ہم پناہاں میں کچھوچھہ چلئے


3

مخدومِ آفاق جن کے نور سے چمکے جہاں

عبدالرزاق نورالعینؒ، اہلِ صفا کی جاں

روضۂ پرنور کی زیبا بہاروں کا نشاں

ان کی تربت کی نزاراں میں کچھوچھہ چلئے


4

وہ اشرف الصوفیہ، جلوہ کدہ عرفاں

بڑے حضرت سید اشرف حسین کا ذکر جاں

بندۂ حق، پیرِ کامل، فیض کا دریا رواں

ان کے در کے نور باراں میں کچھوچھہ چلئے


5

شیخِ اعظم، ہم شبیہِ غوثِ اعظم کا جمال

اعلیٰ حضرت اشرفی، رشدِ کامل کا کمال

عارفِ رب، عینِ طریقت کا جو تھا سرمایۂ حال

ان کی نسبت کے نکھاراں میں کچھوچھہ چلئے


6

واعظوں کے تاجدار، بحرِ مناظر کا امام

احمد اشرف جن کا ہر خطبہ ہے رشکِ کلام

فیض لیں ان کے بیاناتِ بلند و پر نظام

علم و حکمت کے عباراں میں کچھوچھہ چلئے


7

مصطفی اشرف کا علم و حلم کا روشن دیا

تاجِ اصطفا، زبدة الاذکیا، حسنِ صفا

بارگہِ عشق و نظر میں ہے وہ نکتوں کی صدا

ان کی حکمت کے شہکاراں میں کچھوچھہ چلئے


8

قاطعِ نجدیت، عالمِ حق، امامِ سنیات

محدثِ اعظم، اشرفی، دین کا وہ اک اثبات

درسِ حدیث و سنتوں کی روشن کتاب

ان کی فہمِ بے کناراں میں کچھوچھہ چلئے


9

مختار اشرف، وارثِ اشرف کا وہ عالی مقام

عارفِ کامل، پیرِ کامل، مفتی و علم کا جام

درسگاہِ عشق کے اعلیٰ نشاں باکمال

ان کی تربیت کے سہاراں میں کچھوچھہ چلئے


10

مجتبیٰ اشرف، فقاہت کا درِ نایاب تھے

طہارت و تقویٰ کے روشن صاحبِ القاب تھے

خیرالاذکیا، امام الہند کے احباب تھے

ان کی طاعت کے ستاراں میں کچھوچھہ چلئے


11

حامد اشرف، زعیمِ علم و فصاحت تھے جلی

نورِ گفتار و بلاغت کی جو تھی اک منزلی

رہنمائی کا وہ روشن معتبر پیکرِ ولی

ان کے در کے معتبر باراں میں کچھوچھہ چلئے


12

اظہار اشرف، اتحادِ ملت بیضا کے راہ

شیخِ اعظم کے وہ شاہکار، روشن صبح و ماہ

درسگاہِ علم کے روشن چراغ گاہ گاہ

ان کی خدمت کے وقاراں میں کچھوچھہ چلئے


13

قائدِ ملت، سفیرِ امن و الفت، وہ جمال

لباسِ غوثیہ میں ہے جن کے ادا بھی کمال

ان کے چہرے کی ضیاء ہے رضا کا جمال

ان سی نسبت کے اجالاں میں کچھوچھہ چلئے


14

شیخ الاسلام، مجدد ہیں یہ صدی کے امام

جن کے علم و حلم سے روشن ہو گیا ہر مقام

راہِ سنت کے علمبردار، دین کا وہ نظام

ان کی رفعت کے نثاراں میں کچھوچھہ چلئے


15

غازی دیں، ہاشمی میاں، خطیب بے مثال

کفر و بدعت پر جو برسے مثلِ تیغ و زوال

باطلوں کے رد میں جو روشن برقِ ذوالجلال

ان کی للکار کے ماراں میں کچھوچھہ چلئے


16

تاج الاولیا، وہ وارثِ انور کمال

اور سراجِ ملت بیضا کا روشن جمال

ذکرِ حق میں، خدمتِ دین و طریقت میں کمال

ان کی یادوں کے سہاراں میں کچھوچھہ چلئے


17

نیک ہیں، زاہد ہیں، خالد ہیں، نظامت کے امام

فخر ہے وہ خانقاہی علم و حکمت کا کلام

ہر قدم ن کا رہِ اشرف کی تفسیرِ دوام

ان کے چرچے، ان کے پیاراں میں کچھوچھہ چلئے


18

معاذ اشرف، کی نسبت ہے سکوں کی چادر

اور فرید اشرف انجینئر، حکمتوں کا زیور

معز و زاہد کی صورت روشنی کا منظر

ان جوانوں کے نکھاراں میں کچھوچھہ چلئے


19

درسگہ جس کی ہے دانش کا چراغاں ہر سمت

علم کا نور ہے، تقویٰ کا ہے پیغام سلامت

جامع اشرف کی بلندی ہے فلک پر قامت

اس کے اونچے سے دیواراں میں کچھوچھہ چلئے


20

ہے جہاں مختار اشرف کی وہ نایاب خزاں

کتبِ دین و ادب، فکر و حکمت کا سماں

ہو علم و فن کے طلب اور ہو کمالوں کا نشاں

اس کتابی سے گلزاراں میں کچھوچھہ چلئے


21

ہے جہاں مسجدِ اعلیٰ کا وہ منظر رنگیں

جس کا گنبد ہو خضراء کا مظہر دل نشیں

ذکر، تسبیح، مناجات کی ہے لے بھی حسیں

ذکرِ حق کے وہ نگاراں میں کچھوچھہ چلئے


22

طالبانِ علومِ نبویہ کا وہ کارواں

جو گھر چھوڑ کے آیا ہے یہاں درپہ رواں

مخدومِ اشرف کے دیاراں میں جو پاتے ہیں اماں

ان فقیروں کے مداراں میں کچھوچھہ چلئے


23

ہو جہاں دستاربندی کا حسیں منظر خوشا

عرس میں مہکا ہوا رنگ و نظر کا سلسلہ

جامعی، علائی اور اشرفی بھائی ملے ہر جا

ان گلے ملنے کے پیاراں میں کچھوچھہ چلئے


مقطع

عطا، کہتا ہے دلِ خستہ کو ہے بس یہ امید

کچھوچھ کی ہو عطا اور نظر اشرفی کی دید

جملہ بزرگوں کے قدم چومنے کی ہو نوید

فیض یابی کے گدازاں میں کچھوچھہ چلئے

...

🌺 اختتامی گزارش برائے قارئینِ کرام

یہ منظوم کلام "عرسِ پاکِ شہِ سمناں میں کچھوچھہ چلیے" درحقیقت ایک قلبی عقیدت، روحانی نسبت اور خانقاہی محبت کا روشن آئینہ ہے، جو خانوادۂ اشرفیہ کے ان مشائخ، سادات، اداروں اور فیض یافتگان کے حضور ایک نذرانۂ ادب ہے۔

یہ کلام راقم الحروف غلام مزمل عطا اشرفی کی تخلیق ہے، اور "نور ادب" پر شائع کیا جا رہا ہے، تاکہ وہ تمام قلوب جو اشرفی نور سے منور ہونا چاہتے ہیں، اس روحانی قافلے میں ہم سفر بن سکیں۔

تمام قارئین، عشاق اور متوسلینِ اشرفیہ سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ اگر یہ کلام آپ کے ذوق و نسبت سے ہم آہنگ ہو، تو اسے آگے بڑھائیں، جہاں مناسب سمجھیں شائع کریں — بشرطِ یہ کہ اس میں کسی قسم کا رد و بدل نہ کیا جائے تاکہ اس کا اصل اسلوب، ترتیب اور نسبت محفوظ رہے۔

آپ کی محبت، شرکت اور دعاؤں کا خیرمقدم ہے۔

اللہ ہمیں اشرفی نسبت کا سچا ادب شناس بنائے، اور عرسِ شہِ سمناں کی حاضری نصیب فرمائے۔ آمین

— غلام مزمل عطا اشرفی (سہرسہ بہار)

0 Comments

Post a Comment

Post a Comment (0)

Previous Post Next Post